باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

اتوار، 25 فروری، 2024

درختوں کی زندگی (32) ۔ شخصیت کا سوال


میرے گاؤں سے شہر تک جانے والی سڑک کے کنارے تین درخت ہیں۔ کھلے میدان میں بلوط کے یہ بڑے درخت بالکل قریب قریب کھڑے ہیں۔ ان تینوں کو میسر ماحول بالکل ایک ہے۔ مٹی، پانی اور موسم میں فرق نہیں۔ اور یہ ایک تحقیق کا اچھا موقع دیتا ہے۔ کیا یہ درخت ایک جیسے ہیں؟ یا پھر اپنی الگ شخصیت رکھتے ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ اتنے قریب ہیں کہ قریب سے گاڑی چلانے والا شاید یہ نہ دیکھ پائے کہ یہ تین الگ درخت ہیں۔ ان کی شاخیں ایک دوسرے سے ملی ہوئی ایک ہی چھتری بناتی ہیں۔ لیکن یہ درخت ایک جیسے نہیں۔
جب خزاں آتی ہے تو دائیں طرف والے درخت کے پتے رنگ بدلنے لگتے ہیں۔ باقی دونوں ابھی سبز ہوتے ہیں۔ یہ دو ہفتوں کا فرق ہے۔ لیکن اگر ان کا ماحول ایک سا ہے تو پھر یہ فرق کیوں؟ پتے گرانے کی ٹائمنگ ان کی شخصیت کا سوال ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پت جھڑ میں انہیں پتے جھڑنے ہی ہیں۔ لیکن اس کا صحیح وقت کیا ہے؟ درخت کو معلوم نہیں کہ آنے والا وقت کیسا ہو گا۔ اس نے مختصر ہوتے ہوئے دن اور سرد ہوتے ہوئے موسم کی بنا پر فیصلہ لینا ہے۔ کیا ابھی مزید فوٹوسنتھیسس کر لیا جائے؟ اور کچھ اضافی شوگر بنا لی جائے؟ یا پھر محتاط رہا جائے اور یہ خطرہ مول نہ لیا جائے کہ اچانک کہرا نہ پڑ جائے۔ اور تینوں درختوں کے فیصلہ کرنے کا طریقہ الگ ہے۔
دائیں طرف والا درخت زیادہ محتاط ہے۔ کچھ اضافی شوگر بنا لینے کا کیا فائدہ اگر پتے نہ گرا سکے اور سردی کا موسم خطرے میں گزرے؟ تو ان سے جلد نجات پا کر سکون کی نیند سو جایا جائے۔ جبکہ باقی دو زیادہ جراتمند ہیں۔ کیا پتا کہ بہار کیس ہو؟ کیڑوں کا حملہ نہ ہو جائے جس سے مقابلے کے لئے توانائی درکار ہو؟ اس لئے یہ زیادہ دیر تک سبز رہتے ہیں اور اضافہ توانائی کو چھال کے نیچے اور جڑوں میں بھر لیتے ہیں۔
خیال ہے کہ طویل مدت میں محتاط درخت کی حکمت عملی بہتر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
درخت کے بڑھنے کے آباد ہیں کہ اس کا تنا اونچا اور ہموار ہونا چاہیے۔ اس نے نچلے نصف سے شاخیں نہ نکلی ہوں۔ کیونکہ یہاں دھوپ نہیں پہنچتی۔ اضافی اعضا کے لئے توانائی چاہیے تو ان کا ہونا مفید نہیں۔ درخت ان کو مرنے دیتے ہیں۔ خوارک نہیں پہنچاتے اور انہیں فنگس کے حوالے کر دیتے ہیں۔ نیچے کی شاخیں گل سڑ جائیں گی اور ٹوٹ کر مٹی میں مل جائیں گی۔
درخت کا مسئلہ یہ ہے کہ شاخ ٹوٹتی کہاں سے ہے۔ جب یہ ٹوٹ جائے تو اس علاقے کو بھرنے میں درخت کو وقت لگتا ہے۔ ٹوٹی ہوئی جگہ پر حفاظتی چھال نہیں ہے اور فنگس یہاں سے اندر آ سکتی ہے۔ درخت اس کو تبدیل کر سکتے ہیں۔ چند ہی سال میں یہ بھر جائے گا۔ اور یہ پانی کے ذریعے فنگس کو مار دیں گے۔ لیکن اگر شاخ بڑی ہو تو زخم دہائیوں تک بھی رہ سکتے ہیں جہاں سے اندر آنے والی فنگس سے تنے کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور درخت کو غیرمستحکم کر سکتا ہے۔
یہ وجہ ہے کہ درختون کے آداب میں نچلے حصے میں صرف پتلی شاخیں ہوتی ہیں جو کہ گر جانے کے بعد واپس نہیں اگتیں۔
لیکن کچھ درخت ایسا رویہ نہیں اپناتے۔
جب کوئی ہمسایہ مر جائے تو کچھ درخت اضافی روشنی کو استعمال کرنے کے لئے اضافی موٹی شاخیں نچلے حصے میں اگا لیتے ہیں۔ یہ ابتدا میں بہت مفید ہوتی ہیں۔ درخت اوپر اور نیچے فوٹوسنتھیسس کر لیتا ہے۔ لیکن کسی روز ۔۔ شاید بیس سال بعد ۔۔ دوسرے درختوں کے بڑھ جانے کے بعد اس کا نچلا حصہ دوبارہ اندھیرے میں ہے اور موٹی شاخیں مر رہی ہیں۔ درخت کو اپنے لالچ کی بھاری قیمت چکانا پڑتی ہے۔ ایسے نادان درختوں پر ہونے والا فنگس کا حملہ انہیں خطرے میں ڈال دیتا ہے۔
جنگل میں سیر کے وقت آپ خود دیکھ مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ اور ایسا رویہ انفرادی انتخاب ہوتا ہے۔ اور یہ کردار کا سوال ہے۔
ایک ہی جگہ پر اگنے والے الگ درخت دیکھیں۔ ہر ایک کے لئے کشش ویسی ہی ہے۔ لیکن ہر کوئی لالچ کا شکار نہیں ہوتا۔ چند درخت غلط جگہ پر شاخ اگا لیں گے لیکن باقی اپنی چھال کو ہموار اور سیدھا رکھیں گے اور خطرہ نہیں لیں گے۔
طویل مدت کے فائدے کے لئے آج کا ضبطِ نفس۔ یہ فرد کے لئے کردار کا معاملہ ہے۔
(جاری ہے)



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں