باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

بدھ، 19 جون، 2024

پرچم (22) ۔ ترکیہ


عثمانیوں کے جھنڈے میں چاند اور ستارہ تھا۔ کئی ریاستوں نے اسے اپنے جھنڈے میں استعمال کیا۔ ہلال اور ستارے کا نشان اسلام کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے اگرچہ یہ قبل اسلام سے چلا آ رہا ہے۔ بازنطیم نے ہلال کو اپنی علامت بنایا تھا۔ یہ بعد میں قسطنطیہ ہوا اور پھر استنبول۔ اسی علامت کو عثمانیوں نے استعمال کیا۔
یہ غیرواضح ہے کہ ہلال کا انتخاب کیوں ہوا؟ ایک کہانی ہے کہ 339 کی جس رات یہ شہر فیصلہ کن معرکے میں فتح ہوا تھا، اس رات ہلال شہر کے اوپر روشن تھا۔ اور یہ آرٹیمس دیوی کا نشان بھی تھا۔ رومیوں نے اس سے چند صدیوں بعد بازنطیم فتح کیا تو انہوں نے اس دیوی کو ڈیانا کہا اور یہ نشان اپنا لیا۔ اور جب ترکوں نے 1453 میں یہ شہر فتح کیا تو ہلال اس کا نشان اس شہر سے منسوب تھا۔ یہ برقرار رہا۔ ترکوں نے اسے اپنے جھنڈے میں بھی لگا لیا۔ اور یہ مسلمان دنیا سے منسوب ہونے لگا۔ عثمانی روایت کے مطابق اس سلطنت کے بانی عثمان اول نے خواب دیکھا تھا جس میں ہلال دنیا بھر میں چھایا ہوا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابتدا میں عثمانی سلطنت کے جھنڈے میں ہلال سبز جھنڈے پر تھا۔ 1793 کو جھنڈے کا رنگ سرخ کر دیا گیا۔ اس پر کہانی یہ ہے کہ یہ ترک فوجیوں کا خون کی علامت ہے۔
ستارہ پانچ کونوں والا ہے۔ اس کی مشہور کہانی یہ ہے کہ یہ اسلام کے پانچ اراکین کی نمائندگی کرتے ہیں۔ توحید، صلوة، زکوة، صوم اور حج۔ لیکن یہ درست نہیں لگتا۔ کیونکہ 1793 میں ترک جھنڈے پر جو ستارہ تھا، اس کے آٹھ کونے تھے۔ اس سے پچاس سال بعد جا کر یہ کم ہو کر پانچ کئے گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اکیسویں صدی میں ترک جھنڈے میں بنا ہلال زیادہ نظر میں آیا ہے۔ آیا ترک یورپی ملک ہے یا نہیں؟ یہ ایک بحث ہے۔ اور ایک دلچسپ چیز یہ ہے کہ جس طرح یورپ میں مذہبی رنگ کم ہوا ہے، اسی کے ساتھ ساتھ ہی یہ بحث زور پکڑ گئی ہے کہ یورپ کرسچن اقدار پر قائم ہے۔ اس کی ایک وجہ تارکین وطن کا بحران ہے۔
جب ترکیہ کے یورپی کردار پر بحث ہوتی ہے تو یہ دلیل دی جاتی ہے کہ یورپی یونین کا مذہب سے تعلق نہیں۔ کسی ملک میں کونسا مذہب ہے؟ یہ یونین میں شرکت کا معیار نہیں ہے۔ لیکن یہ اتنا سادہ اور آسان نہیں۔ صحیح یا غلط، ترک جھنڈے کا ہلال یورپ کی قدیم جنگوں کی اجتماعی یاد کو تازہ کرتا ہے۔ 1683 میں یورپی سلطنت ویانا کے دروازے پر دستک دے رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیٹو کے ہیڈکوارٹر پر ترکی کا پرچم ستارہ و ہلال فخریہ انداز سے لہراتا ہے۔ لیکن اس سے چند میل دور یورپی یونین پر اس کے لہرانے کا تصور ابھی نہیں کیا جا سکتا۔ نیٹو عسکری اتحاد ہے جبکہ یورپی یونین سیاسی اور کلچرل۔ اس پرچم کو لئے ترک جنگجو تین صدیاں پہلے یورپ میں فتوحات کر رہے تھے۔ اگلی دہائیوں میں ہونے والی جدید سیاسی بحث میں یہ یاد لاشعوری طور پر اپنا کردار ادا کرے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جولائی 2016 میں ترکی میں بغاوت ہوئی۔ ترک فوج سیاسی حکومت کا تخت الٹنے نکلی۔ سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کو اس بغاوت کا مقابلہ کرنے پکارا گیا۔ مسجدوں کے میناروں سے پکار آئی۔ بڑی تعداد میں لوگ سڑکوں میں امڈنے لگے۔ ترک پرچم لہراتے ہوئے انہوں نے فوجی حکومت کی آمد کا راستہ روک دیا۔ اس سب میں مرنے والوں کو ترک پرچم میں لپیٹا گیا۔ اور جب فوج کو واپس بیرکوں میں دھکیلا جا چکا تھا اور ان کے سیاسی عزائم کی سرکوبی کر دی گئی تھی تو لاکھوں لوگ صدر اردگان کی حمایت میں اکٹھے ہوئے۔ اس عظیم مجمع میں سب سے نمایاں چیز ترکی کا سرخ و سفید پرچم تھا۔ جو مزاحمت کی علامت بنا تھا۔
ہر کوئی صدر کا حامی نہیں تھا لیکن قومی جھنڈا اتحاد کی علامت تھا۔ اس پر ہر کوئی متفق تھا۔ ترکیہ نے دہائیوں سے جاری فوجی مداخلت کے جبر سے نجات حاصل کر لی تھی۔
فوجیوں کو ناکام بنانے میں صدیوں پرانی طاقتور علامت کا کردار مزاحمت کاروں کو متحد کرنے کا تھا۔
(جاری ہے)



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں