باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

بدھ، 19 جون، 2024

پرچم (24) ۔ ایران


ایران کے جھنڈے پر عرب اثر اس پر لکھی عبارت سے ہے۔ (یہ کوفی رسم الخط میں لکھا اللہ اکبر ہے)۔ اور ساتھ ہی ساتھ، یہ فارسی اور انقلابی ہے۔ جھنڈا سادہ تین رنگوں پر مشتمل ہے۔ اوپر سبز پٹی ہے، پھر سفید اور نیچے سرخ۔ یہ 1980 میں بنایا گیا تھا۔ یہ انقلاب ایران سے اگلا سال تھا۔ شاہ ایران کے تخت الٹ کر نئی ایرانی حکومت 1979 میں آئی تھی۔ سبز رنگ ایرانی کلچر کے کئی چیزوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ سبز فاطمی سلطنت کا رنگ تھا۔ اور اسی وجہ سے عرب جھنڈے پر ہے۔ فاطمی سلطنت شیعہ تھی اور اس وجہ سے ایران سے ایک نسبت ہے۔ سفید رنگ آزادی کا، جبکہ سرخ کی نسبت شہادت اور شجاعت سے ہے۔
ان رنگوں سے زیادہ دلچسپ ان کے درمیان میں بنا ڈیزائن ہے۔ ایران کو شاہ کے دور سے منفرد بھی ہونا تھا۔ لیکن ساتھ ہی ایک قدیم کلچر سے نسبت بھی برقرار رکھنا تھی۔
اس کیلئے جو حل نکالا، وہ یہ کہ جھنڈا وہی استعمال کیا جائے جو کہ انقلاب سے پہلے کا تھا۔ 1980 سے پہلے استعمال ہونے والے جھنڈے میں رنگ یہی تھے لیکن درمیان میں ایک شیر اور سورج کا نشان تھا۔ اس نشان کی اہمیت صدیوں پرانی ہے۔ شیر اور سورج اصل میں نجوم کے نشان تھے لیکن یہ شاہی خاندان کے ساتھ منسوب ہو گئے۔ یہ ایران کے جھنڈے پر چلے آ رہے تھے لیکن بادشاہت کے خاتمے کے بعد یہاں باقی نہیں رہ سکتے تھے۔
نیا ڈیزائن حمید ندیمی کا بنایا ہوا تھا جو تہران کی شہید بہشتی یونیورسٹی کے پروفیسر تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ جذباتی بٹن کونسے ہیں اور بڑی مہارت سے کام کیا۔ وہ تاریخ، ثقافت اور مذہب سے آگاہ تھے۔ جھنڈے کی بنیادی ہیئت برقرار رکھی۔ اور درمیان کے ڈیزائن کے لئے انہوں نے جو انتخاب کیا، اس نے سب سے قبولیت حاصل کی۔
اگر آپ ایرانی نہیں ہیں تو درمیان کے ڈیزائن کی شکل اجنبی ہے لیکن ایرانی آنکھ سے یہ گلِ لالہ ہے۔
اگر آپ تہران جائیں تو یہ نشان بہت عام دکھائی دے گا۔ یہ ایرانی ثقافت کا حصہ ہے۔ یہ پھول بہار میں کھلتا ہے۔ یہ نوروز ا وقت ہے جو کہ ایران کا نیا سال ہے۔ تین ہزار سال سے ایرانی اس تہوار کو مناتے آ رہے ہیں۔ نوروز کے گیتوں میں بھی اس پھول کا ذکر آتا ہے۔
اور ایسے معاملات میں ہمیشہ پرانے قصے اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ کہانی یہ ہے کہ چھٹی صدی میں ایک شہزادے فرہاد نے اپنی محبت شیریں کی موت کی خبر سن لی تھی۔ اور پہاڑی سے کود کر اپنی جان دے دی تھی۔ لیکن یہ خبر جھوٹی تھی۔ اور یہ خبر رقیب نے اڑائی تھی۔ اس کہانی کے مطابق، جہاں فرہاد نے اپنی جان دی تھی، اس کے خون سے سیراب ہوئی زمین میں لالے کے پھول نکلنے لگے۔
ایسے ہی ایک کہانی حضرت امام حسین کے بارے میں بھی کہی جاتی ہے۔ کربلا میں ان کا خون جہاں گرا تھا، وہاں سے بھی یہی پھول کھلے تھے۔ کربلا کا واقعہ شیعہ اسلام میں ایک مرکزی حیثیت رکھتا ہے اور یہ پھول اس میں شہادت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
ایران اور عراق کی جنگ 1980 سے 1988 تک جاری رہی۔ اس میں لاکھوں لوگوں نے اپنی جانیں گنوائیں۔ نوجوان فوجیوں کی یاد میں بنی تصویروں پر یہ پھول نمایاں طور پر بنایا جاتا تھا۔ اور حمید ندیمی نے جب جھنڈا ڈیزائن کیا تو اس کو استعمال کیا۔
سرخ پٹی کے اوپر اور سبز پٹی کے نیچے، اللہ اکبر کو سٹائل سے لکھا گیا ہے۔ یہ بائیس مرتبہ لکھا ہے۔ یہ ایرانی کیلنڈر میں بہمن مہینے کی بائیسویں تاریخ سے ہے۔ یہ 1979 میں انقلاب کا دن تھا جب تہران ریڈیو سے فاتحانہ طور پر اعلان ہوا تھا کہ یہ اسلامی جمہوریہ ایران کا ریڈیو ہے۔
جھنڈے کے مرکز میں سفید پٹی پر سرخ پھول پیچیدہ علامات سے بھرپور ہے۔ اس میں چار ہلال ہیں اور مرکزی شاخ میں ایک طرف تو اللہ پڑھا جاتا ہے۔ اور ساتھ ہی یہ اسلام کے پانچ اراکین کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ شاخ قوم کے اتحاد کی علامت بھی ہے۔ آیت اللہ خمینی نے اس کے symbolism کو پسند کیا تھا۔ اور جب ان کی 1989 میں وفات ہوئی تو ان کے مقبرے پر شیشے میں 72 پھول بنوائے گئے۔ یہ عدد امام حسین کے ساتھیوں کی تعداد کا ہے۔
لیکن یہ پھول تمام ایرانیوں کے لئے معنی رکھتا ہے۔ اور جب 2009 میں انقلابی حکومت کے خلاف مظاہرے پھوٹ پڑے تھے تو اپوزیشن نے اس پھول کو مزاحمت کی علامت کے طور پر استعمال کیا تھا۔
ایسا بہت کم ہے کہ ایک ہی علامت تاریخ، مذہب، قصوں اور قوم کی شاعری کو سمیٹ دے۔ اس وجہ سے ایران کا جھنڈا ایک شاندار مثال ہے کہ علامات کس قدر اونچا بول سکتی ہیں۔
(جاری ہے)

 




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں