آج سے پینتیس سال قبل ایک دیوار گری۔ اس وقت توقع تھی کہ عالمگیریت اور امن کی آمد ہے۔ 1987 میں امریکی صدر ریگن برلن میں گئے اور اپنے سوویت ہم منصب کو مخاطب کر کے کہا کہ “مسٹر گورباچوف، یہ دیوار گرا دیں”۔ اس سے دو سال بعد یہ گر چکی تھی۔ برلن، جرمنی اور پھر یورپ کے متحد ہونے کا وقت تھا۔ یہ وہ دور تھا جب کئی دانشور یہ پیشگوئی کر رہے تھی کہ تاریخ مکمل ہو چکی ہے۔ تاہم، تاریخ کبھی مکمل نہیں ہوتی۔
آج کی دنیا میں “دیوار گرا دو” ماضی کے پکار لگتی ہے۔ عالمگیریت کا خواب قصہ پارینہ ہوا۔ قوم پسندی مروجہ قدر ہے۔
دیواریں دنیا بھر میں کھڑی ہو رہی ہیں۔ ٹیکنالوجی کی ترقی اور گلوبلائزیشن کے باوجود آج دنیا تقسیم ہے۔ اکیسویں صدی میں ہزاروں میل کی دیواریں اور باڑیں دنیا بھر میں تعمیر کی گئی ہیں۔ کم از کم 65 ممالک نے اپنے سرحدوں پر رکاوٹیں تعمیر کی ہیں۔ یورپی ممالک میں اب دیواروں اور باڑوں کی لمبائی اس وقت سے بھی زیادہ ہے جب سرد جنگ کا عروج تھا۔ ان کی مدد سے گریس کو میسیڈونیا سے الگ کیا گیا۔ میسیڈونیا کو سربیا سے۔ سربیا کو ہنگری سے۔ خاردار تاریں پھیلتی گئیں۔ سلوانیا نے کروشیا کی سرحد پر بنائی۔ آسٹریا نے سلوانیا کو الگ کر دیا۔ سویڈن نے ڈنمارک سے آنے والے غیرقانونی تارکین وطن کو روکنے کے لئے رکاوٹیں کھڑی کر دیں۔ اسٹونیا، لیٹویا اور لتھونیا نے روس کی طرف دفاعی فصیل تعمیر کی۔
یورپ اکیلا نہیں ہے۔ متحدہ عرب امارات نے عمان کے ساتھ۔ کویت نے عراق کے ساتھ۔ عراق نے ایران کے ساتھ۔ ایران اور پاکستان کی 435 میل لمبی سرحد پر۔ پاکستان اور افغانستان کی 1645 میل لمبی سرحد پر۔ مشرقی ایشیا میں ازبکستان ایک زمین بند ملک ہے۔ لیکن پھر بھی اس نے اپنے پانچوں ہمسائیوں ۔۔۔ افغانستان، تاجکستان، قازقستان، ترکمانستان، کرغزستان ۔۔ کے ساتھ سرحدیں بند کر لی ہیں۔ تاجکستان کی سرحد پر تو بارودی سرنگیں بھی بچھا دی ہیں۔ برونائی اور ملیشیا، ملیشیا اور تھائی لینڈ، پاکستان اور انڈیا، انڈیا اور بنگلہ دیش، چین اور شمالی کوریا، شمالی کوریا اور جنوبی کوریا ۔۔۔۔ دنیا بھر میں یہ ایسے ہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کی کئی وجوہات ہیں کہ ہم دیواریں بناتے کیوں ہیں۔ ہم کئی لحاظ سے تقسیم ہیں۔ دولت، نسل، مذہب اور سیاست کے حوالے سے۔ کئی بار تقسیم تشدد کی طرف لے جاتی ہے۔ دیوار اسے روکنے کے لئے یا پھر دفاع کے لئے کام آتی ہے۔ کئی بار دیواروں سے کچھ طرح کے لوگوں کو دور رکھنے کا کام لیا جاتا ہے۔
کئی بار دیوار مادی نہیں ہوتی۔ لیکن ہم علیحدگی کو محسوس کرتے ہیں۔ ہمارے ذہن میں ہوتی ہے۔ اور یہ غیرمرئی رکاوٹ بھی موثر ہوتی ہے۔
یہ دیواریں عالمی سیاست کا بتاتی ہیں اور قومی ریاستوں کی کہانیاں بھی۔ یورپ میں ان کا بڑا مقصد تارکینِ وطن کی یلغار کو روکنا ہے۔ لیکن یہ یورپی یونین کی تقسیم اور اس کے سٹرکچر کے غیرمستحکم ہونے کا بھی نتیجہ ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی پہلی بار صدارتی مہم میں بڑا نعرہ میکسیکو کے ساتھ دیوار کا تھا۔ یہ جنوب سے آنے والے تارکین وطن کو روکنے کے لئے بھی تھا۔ اور اپنے حامیوں کے ذہنوں میں اس خوف کو اجاگر کرنے کے لئے بھی کہ ملک میں آبادی کی ہیت کس طریقے سے تبدیل ہو رہی ہے۔
تقسیم سیاست کو ہر سطح پر شکل دیتی ہے، خواہ وہ شخصیات پر ہو، مقامی، قومی، عالمی حالات کے بارے میں یا نظریات پر۔ یہ اہم ہے کہ ہم اس سے آگاہ رہیں کہ ہمیں کیا شے تقسیم کرتی ہے تا کہ ہم اس کو سمجھ سکیں کہ دنیا میں ہو کیا رہا ہے۔
(جاری ہے)
Post Top Ad
Your Ad Spot
جمعہ، 6 دسمبر، 2024
Tags
Divided#
Share This
About Wahara Umbakar
Divided
لیبلز:
Divided
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
رابطہ فارم
Post Top Ad
Your Ad Spot
میرے بارے میں
علم کی تحریریں۔ مجھے امید ہے کہ میری یہ کاوش آپ سب کو پسند آئے گی اگر آپ نے میری اس کاوش سے کچھ سیکھا ہو یا آپ کے لئے یہ معلومات نئی ہوں تو اپنی رائے کا اظہار ضرور کیجیئے گا۔ شکریہ
۔
وہارا امباکر
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں