عرب کلچر میں بہت کچھ مشترک ہے لیکن جنگیں اور بغاوتیں عام رہی ہیں۔ تنازعات کے عوامل میں سے ایک مذہب ہے۔
عرب آبادی کا بڑا حصہ مسلمان ہے لیکن شیعہ اور سنی کا تنازعہ ہمیشہ رہا ہے جو کہ ساتویں صدی سے شروع ہوا تھا۔ اگر کوئی ان اختلافات سے واقفیت نہیں رکھتا تو اس کے لئے انہیں سمجھنا مشکل ہو گا لیکن اپنے پیروکاروں کی طرف سے انہیں کئی بار بہت سنجیدہ لیا جاتا ہے۔
عرب میں اکثریت سنی ہیں۔ لیکن ایران، عراق اور بحرین میں شیعہ اکثریت ہے۔ لبنان، یمن، کویت اور مشرقی سعودی عرب میں یہ بڑی اقلیت ہیں۔ پانچ ارکان پر اتفاق رکھنے کی وجہ سے عام طور پر تو باہمی امن سے رہتے ہیں۔ لیکن کئی بار اختلافات شدت اختیار کر لیتے ہیں اور تشدد کا راستہ بھی لیتے ہیں۔
یمن میں 2005 میں خانہ جنگی شروع ہوئی جس میں ایک جانب سنی حکومت تھی جس کو سعودی حمایت حاصل تھی جبکہ دوسری طرف ایران کے حمایت یافتہ حوثی تھے۔ اس جنگ میں تیس لاکھ افراد بے گھر ہوئے ہیں۔
سیریا میں سنی، شیعہ، علوی، کرد، کرسچن، دروز وغیرہ کی تقسیم رہی ہے۔ موجودہ صدر کے والد حافظ الاسد نے ملک کو جبر کے ذریعے ایک سیکولر آمریت تلے یکجا کیا تھا۔ جب یہ بیڑیاں 2011 میں کھلیں تو نتیجہ بڑی تباہی اور پیچیدہ جنگ و جدل کی صورت میں نکلا جس میں نہ صرف اندرونی بلکہ بیرونی طاقتوں نے بھرپور حصہ لیا۔
ایسی خانہ جنگی کسی ایک وجہ سے نہیں ہوتی لیکن اس میں شک نہیں کہ تلخ فرقہ وارانہ اختلافات کا ان میں اہم کردار رہا ہے۔ مختلف ممالک ایک دوسرے پر اپنے پسندیدہ دہشگرد گروہ کی حمایت اور مسلح کرنے کا الزام لگاتے رہے ہیں اور ان کا نتیجہ “دیواروں کے عہد” کی صورت میں نکلا ہے۔
سعودی عرب نے اپنی شمالی اور جنوبی سرحد پر سینکڑوں میل لمبی خاردار تاریں بچھائی ہیں۔ اردن نے سیریا کے ساتھ اپنی سرحد پر ایسا کیا ہے۔ ترکوں نے دس فٹ اونچی اور سات فٹ موٹی دیوار بنائی ہے۔ جبکہ لیبیا کے حالات کی وجہ سے تیونس اور مصر نے اپنی سرحدوں پر باڑ تعمیر کی ہے۔
اردن کی تعمیر ٹیکنالوجی کے لحاظ سے سب سے آگے ہے، اگرچہ کہ اس کی وجوہات افسوسناک ہیں۔ اس کے شمال میں سیریا کی جنگ اور مشرق میں عراق کی جنگ کی وجہ سے لاکھوں مہاجرین اردن میں داخل ہوئے۔ 2008 میں ہاشمی حکمران کو خطرہ محسوس ہونے لگا کہ عراق سے آنے والا انتشار ان کے ملک میں پھیل جائے گا۔ اگرچہ اس وقت سیریا کی جنگ شروع نہیں ہوئی تھی لیکن خطہ تشدد کی آگ میں جل رہا تھا۔ پہلے سیریا کی سرحد کی نگرانی کے لئے اہم مقامات پر ٹاور بنائے گئے۔ پھر یہ پراجیکٹ بڑھنے لگا۔ جورڈن بارڈر سیکورٹی پروگرام کو امریکہ نے فنڈ کیا اور اس کا ٹھیکہ امریکہ کمپنی رے تھیون کو ملا۔ سیریا کی سرحد پر 160 میل لمبی سیکورٹی باڑ ہے جس میں نگرانی کے ٹاور ہیں، رات کے اندھیرے میں دیکھنے کے لئے کیمرہ ہیں۔ زمین پر حرکت محسوس کرنے کے لئے سنسر ہیں جو کہ پانچ میل دور کی حرکت کا پتا لگا لیتے ہیں۔ ایسا ہی سٹرکچر عراق کی 115 میل لمبی سرھد کے ساتھ ہے۔
سعودی سرحد پر تعمیر کردہ باڑیں زیادہ مہنگی اور زیادہ لمبی ہیں۔ اور انہیں بھی امریکی کمپنیوں نے تعمیر کیا ہے۔ شمال میں عراق کے ساتھ 550 میل لمبی سرحد پر ٹرپل باڑ لگائی گئی ہے۔ ان کے درمیان فصیلیں ہیں۔ 32 سٹیشن ہیں جو کہ سات مراکز سے منسلک ہیں۔ 240 گاڑیاں ہر وقت نگرانی پر معمور رہتی ہیں۔
عراق اور سعودی تعلقات اتار چڑھاؤ کا شکار رہتے ہیں جس وجہ سے یہ دفاعی حصار ضروری سمجھے گئے۔
جنوب میں سعودی عرب نے ایسے ہی یمن کے ساتھ سرحد پر کیا ہے۔ یہ پراجیکٹ 2003 میں شروع ہوا تھا۔ اس کا مقصد اسلحے اور افراد کی سمگلنگ کا سد باب کرنا تھا۔ ابتدا میں یہ کنکریٹ کے بلاک اور ریت کے تھیلوں کی مدد سے بنی رکاوٹیں تھیں۔ لیکن جب 2009 میں یمن کی طرف سے حوثیوں نے سعودی عرب میں گھس کر حملہ کر کے دو سعودیوں کو ہلاک کیا تو یہاں پر برقی سنسر والی باڑ لگائی گئی جو کہ سو میل لمبی تھی۔
سعودی اور یمن سرحد اس قدر دشوار سرزمین پر ہے کہ اس کو مکمل طور پر باڑ سے نہیں روکا جا سکتا۔ اس کے علاوہ ایک اور مسئلہ اندرونی بھی ہے۔ سعودی عرب کی پندرہ فیصد آبادی شیعہ ہے جس کا زیادہ تر مشرقی صوبوں میں آباد ہے۔ یہی وجہ جگہ ہے جہاں پر سعودی تیل کے ذخائر کا بڑا حصہ ہے۔ اور یہ وجہ ہے کہ سعودی عرب کو اندرونی پالیسیوں میں نازک توازن رکھنا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Post Top Ad
جمعہ، 6 دسمبر، 2024
دیواریں (13) ۔ مشرقِ وسطی
Tags
Divided#
Share This
About Wahara Umbakar
علم کی تحریریں۔ مجھے امید ہے کہ میری یہ کاوش آپ سب کو پسند آئے گی اگر آپ نے میری اس کاوش سے کچھ سیکھا ہو یا آپ کے لئے یہ معلومات نئی ہوں تو اپنی رائے کا اظہار ضرور کیجیئے گا۔ شکریہ
۔
وہارا امباکر
لیبلز:
Divided
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں