باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعہ، 6 دسمبر، 2024

دیواریں (7)


چینی حکومت سوشل میڈیا کے طاقت سے خائف ہے جو کہ ہم خیال گروہوں کو یکجا کر سکتی ہے جس کا نتیجہ منظم احتجاج کی صورت میں نکل سکتا ہے۔
نیدرلینڈز سے تعلق رکھنے والے محقق راجر کریمرز کہتے ہیں کہ “باہر کی دنیا چینی حکومت کے رویے کو درست طور پر سمجھ نہیں پاتی۔ جب ہم انٹرنیٹ پر سائبرسیکورٹی کا تصور کرتے ہیں تو اس کے معنی جرائم اور ضرر سے بچاؤ کے ہیں لیکن چین میں اس کی اصطلاح کے معنی میں اضافی طور پر معاشی اور سماجی انتشار پیدا کرنے والے مواد سے بچاؤ بھی ہے”۔
چین کے مختلف علاقوں میں سنسرشپ کی سطح یکساں نہیں۔ مثلاً، تبت اور سنکیانگ میں یہ زیادہ کڑی ہے۔ اگر آپ شنگھائی میں وی پی این کے ذریعے کوئی ممنوعہ اخبار پڑھتے ہیں تو زیادہ مسئلہ نہیں لیکن اڑمچی میں ایسا کرنے سے پولیس کی طرف سے کال آ سکتی ہے کہ وہ آپ سے ٹیکنالوجی کے موضوع پر گفتگو کرنا چاہیں گے۔
چین اس بارے میں زیادہ محتاط اس وقت سے ہوا جب سمارٹ فون عام ہوئے اور اس کے نتیجے میں 2017 میں سخت قوانین آئے۔ چین کے بارے میں کوئی بھی ڈیٹا چینی کی سرحد سے باہر لے جانے کی نگرانی انٹیلی جنس اداروں کے سپرد ہے۔ سوشل میڈیا کمپنیوں کو چین میں کام کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اپنے صارفین کا چھ ماہ کا ڈیٹا محفوظ رکھے جس میں ان کی آن لائن ایکٹیویٹی کی تفصیلات ہوں۔ اور حکومت کی درخواست پر اور کسی بھی تفتیش کی صورت میں اس کے حوالے کرنے کی پابند ہو گی۔
کریمرز کہتے ہیں کہ پارٹی ایسا کرنے کو ناگزیر سمجھتی ہے کیونکہ کسی بھی ممکنہ عوامی بے چینی کو ابتدا میں ہی فرو کیا جا سکتا ہے۔ چینی حکومت کو اس تمام نظام کو بنانے میں چند برس لگے تھے۔ لیکن اب اس بات کو یقینی بنایا جا چکا ہے کہ لوگوں کو جغرافیائی، طبقاتی یا کسی بھی اور طریقے سے منظم ہونے کے لئے انٹرنیٹ مددگار نہ ہو۔ روایتی میڈیا کو چین پہلے ہی اچھی طرح سے کنٹرول کرتا ہے۔ انٹرنیٹ نے اس کو کچھ بے قابو کیا تھا کیونکہ لوگوں کے پاس معلومات تک رسائی ہونے لگی تھی لیکن اس جانب سے خطرے کو بڑی حد تک دور کر لیا گیا ہے۔
انٹرنیٹ کو کنٹرول کرنے کا کام چینی صدر نے خاص طور پر اپنی نگرانی میں کروایا ہے۔ شی جن پنگ انٹرنیٹ کے فوائد اور خطرات کی طاقت سے واقف ہیں اور 2013 سے اس بارے میں پالیسی بنانے اور عملدرآمد کروانے کے کام کرنے کے تمام ڈیپارٹمنٹ انہیں براہِ راست رپورٹ کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنی شخصیت کا تاثر بنانے میں بھی اسے استعمال کیا ہے۔ ان کا چہرہ اب چین میں جابجا نظر آتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چین میں ایک اور تقسیم ہے۔ یہ ان کے درمیان ہے جو انگریزی بول سکتے ہیں (اور اقلیت میں ہیں) اور دوسرے جو کہ نہیں بول سکتے۔ اگر چین میں استعمال ہونے والے سرچ انجن (بیڈو) میں جرمن زبان میں تیانامن سکوائر ٹینک کو سرچ کریں تو جو نتائج نظر آئیں گے، ان میں جرمن زبان میں 1989 کے واقعات کا ذکر مل جائے گا لیکن اگر چینی زبان میں سرچ کریں تو نہیں ملے گا۔ اگر آپ چینی زبان تک محدود ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ دستیاب معلومات کا دائرہ بھی کچھ محدود ہو جاتا ہے۔
چینی سائبرسپیس انتظامیہ ایک اصطلاح استعمال کرتی ہے جو کہ “مثبت توانائی” کی ہے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ قابلِ قبول انفارمیشن تک رسائی رہے تا کہ معاشرے میں سکون برقرار رہے۔ اس محکمے کے سربراہ لو وی ہیں جو کہ انفارمیشن کی طاقت سے بخوبی واقف ہیں۔ لو وی کا کہنا ہے کہ ان کا کام “چینی مزاج کے مطابق چینی انٹرنیٹ پر گورننس” کا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ “ہم بہت مہمان نواز قوم ہیں لیکن ہم اس بات کا تعین کرنے میں آزاد ہیں کہ کسے ہمارا مہمان بننے کی اجازت ہے”۔
انٹرنیٹ پر سنسرشپ چینی معیشت پر منفی اثر ڈالتی ہے کیونکہ یہ جدت میں رکاوٹ کا باعث بنتی ہے۔ چین مصنوعات بنانے میں دنیا میں آگے ہے لیکن جدت میں نہیں۔ آئی فون چین میں بنتے ہیں لیکن اس کا ڈیزائن اور ٹیکنالوجی یہاں سے بہت دور، سیلیکون ویلی میں۔  اور سنسرشپ کی پابندیوں کا اس میں کردار ہے۔
ایسا نہیں کہ چین کو اس کا احساس نہیں ہے لیکن چینی حکومت کا خیال ہے کہ معاشرے میں استحکام رکھنے کے لئے یہ قیمت ادا کرنا برا سودا نہیں۔ کمیونسٹ پارٹی کو ڈیڑھ ارب لوگوں کا خیال رکھنا ہے۔ ان کے لئے روزگار ڈھونڈنا ہے۔ ایسی منڈیوں تک رسائی پانا ہے جہاں ان کی بنائی ہوئی چیزیں بیچی جا سکیں۔ اور ساتھ ہی ساتھ کمیونسٹ پارٹی کا خیال ہے کہ ایسا کرنے کے لئے اسے کسی بھی قسم کی اپوزیشن کو متحد ہونے سے روکنا ہے۔ خواہ وہ جمہوریت کا نعرہ لگانے والے طلباء ہوں، تبت کے علیحدگی پسند ہہوں، فالن گونگ کے مذہبی طرز کے ہوں یا کوئی بھی اور گروہ۔ انفارمیشن کی آزادی انہیں طاقتور کر سکتی ہے اور یہ معاشی ترقی میں رخنہ انداز ہو سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
چن شی ہوانگ نے متحارب ریاستوں کے درمیان قائم اندرونی دیواریں صرف اس وقت گرائی تھیں جب اسے اعتماد تھا کہ وہ انہیں اکٹھا رکھ سکیں گے۔ ان سے دو ہزار سال بعد بھی چین کا یہی مخمصہ ہے۔ چین کے اندر کی آبادی پر پر کنٹرول قائم رکھنے کے لئے ڈیجیٹل دیوار اس میں چینی ریاست کی مدد کرتی ہے۔

 
 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں