جب ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے پینتالیسویں صدر منتخب ہوئے تو ووٹ لینے کے لئے ان کا ایک بڑا نعرہ امریکہ کی جنوبی سرحد پر “بڑی خوبصورت دیوار” تعمیر کرنے کا تھا۔
اس دیوار کا مقصد میکسیکو کی سرحد سے آنے والے غیرقانونی تارکین وطن کی آمد کو روکنا تھا۔ اگرچہ وہ خود جانتے تھے کہ ان کا وعدہ قابلِ عمل نہیں۔ اس پر ہونے والا خرچ، سیاسی مضمرات اور خاص طور پر جس قسم کی زمین پر اس کی تعمیر ہونی تھی، وہ مسائل تھے جس کی سبب یہ تعمیر نہیں ہو سکتی تھی۔ تاہم، اپنی تقاریر میں اس دیوار کا ذکر ان کے حامیوں کے لئے پرکشش رہا۔
اپنی تقاریر میں انہوں نے تیس فٹ اونچی کنکریٹ کی دیوار کا وعدہ کیا تھا لیکن صدر بننے کے بعد پہلے سال انہوں نے ۱۱۰۰ ارب ڈالر کا بل منظور کیا، اس میں سے جو حصہ دیوار کیلئے رکھا، وہ صفر تھا۔
بہرحال، یہ ایک مشہور اور مقبول غیرموجود دیوار تھی جس کا طاقتور کردار رہا ہے۔ علامات اور بیانیہ کلچر اور سیاست میں بہت طاقت رکھتے ہیں۔
اگرچہ دیوار کے لئے فنڈ تو مختص نہیں کئے گئے لیکن امریکہ کی سرحد کنٹرول کرنے والی ایجنسی نے اس کے لئے ڈیزائن طلب کر لئے۔ اس میں کہا گیا کہ دیوار کو اس قدر مضبوط ہونا چاہیے کہ اس پر چار گھنٹے تک ہتھوڑوں اور کلہاڑوں سے ضربیں لگائی جائیں تو کچھ نہ ہو۔ آگ دکھائی جائے تو فرق نہ پڑے۔ اس کی بلندی سے خوف آئے اور اس پر چڑھنا ممکن نہ ہو۔ اس کے جواب میں دو سو دلچسپ جوابات موصول ہوئے۔
مثلا، کلیٹن صنعتی گروپ نے تجویز کیا کہ میکسیکو کے طرف زنجیروں کی باڑ ہو جبکہ امریکہ کی طرف کنکریٹ کی۔ ان دونوں کے درمیان خندق ہو جہاں پر نیوکلئیر فاضل مادہ دفن کیا جائے۔ ایک اور ڈیزائن دیوارِ چین کی طرز کا تھا جس میں نگرانی کے لئے پوسٹ بھی بنے تھے۔ چھبیس فٹ بلند دو کنکریٹ کی دیواروں کے بیچ میں تیس فٹ کی گارے کی بھرائی تھی۔ اوپر پیدل چلنے کا راستہ جس پر سائیکل بھی چلائی جا سکے تا کہ سیاحتی مقام بن جائے۔ یہ ڈیزائن تجویز کرنے والے سابقہ پولیس شیرف تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ “دیوار صرف ایک لوگوں کا غیرقانونی داخلہ مسدود کرنے کے لئے رکاوٹ نہیں ہے بلکہ یہ امریکہ کے اس عزم کی علامت بھی ہے کہ ہمیں اپنی ثقافت، زبان اور ورثے کا دفاع باہر سے آنے والوں کے مقابلے میں کرنا ہے”۔
اور یہ معاملے کی اصل روح ہے۔ دیوار اس چیز کی علامت ہوتی ہے کہ “جو کچھ کیا جا سکتا تھا، وہ کیا جا رہا ہے”۔ ڈاکٹر ریس جونز کہتے ہیں کہ “دیواریں اپنے کام میں موثر نہیں رہتیں لیکن علامت کے طور پر بہت طاقتور ہیں”۔ اور ٹرمپ اس میں کامیاب رہے تھے کہ یہ اس کا غلغلہ قومی شناخت کے تصور کا دفاع کرنے کا نشان تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر ملک میں کئی قسم کی تقسیم اور اختلافات کی دراڑیں ہوتی ہیں۔ امریکہ میں اسے “خدا کے نیچے ایک قوم جس میں سب برابر ہیں” کے نعرے سے جوڑنے کی کوشش رہی۔ اپنی مسائل اور تنازعات سے بھری تاریخ کے ساتھ امریکہ آئینی اور قانونی طور پر ایک آزاد ملک بن گیا جس میں شہریوں کی برابری اور حقوق کا تحفظ بڑی حد تک کیا جاتا ہے۔ اور یہ آسان کام نہیں تھا۔ “قانون کے آگے شہریوں کا برابر ہونا” ایک مضبوط اور مشکل تصور ہے جس کو حاصل کر لینے میں کامیابی ملک میں اندرونی تقسیم ختم کرنے میں کامیابی کی وجہ بنی۔
امریکی قومی نشان میں گنجے عقاب کی چونچ میں ماٹو لکھا ہے E pluribus unum جس کے معنی “بہت سے ملکر ایک” کے ہیں۔ یعنی کہ الگ الگ نسل، قومیت، مذہب زبان اور پس منظر رکھنے والوں کے ساتھ ملکر بننے والی ایک قوم۔ امریکہ اس میں مکمل طور پر کامیاب نہیں بھی ہوا، تب بھی بہت سے ممالک سے بہتر طور پر اس حاصل کیا ہے۔ کیونکہ قبائلی، مذہبی، لسانی یا دیگر قسم کی شناخت کی دیواریں کو عبور کرنے میں جزوی کامیابی بھی کئی بار دشوار رہتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر دیوار کی اپنی ایک کہانی ہوتی ہے۔ مثلاً، سعودی اور عراقی سرحد پر بنی دیوار کام کرتی ہے۔ اگرچہ اس سرحد کے دونوں اطراف میں رہنے والے زبان، ثقافت، مذہب وغیرہ میں زیادہ مختلف نہیں۔ اور نہ ہی ایسا ہے کہ دونوں ممالک میں کشیدہ تعلقات ہیں۔ تو پھر دیواروں سے یہ رکاوٹ کیوں؟ ان کا مقصد کس کو کس سے الگ رکھنا ہے؟
دیوار کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان بحث اور تنازعے کے پیچھے اقدار کی ایسا ہی کہانی ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں