باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعہ، 17 جنوری، 2025

زندہ روشنیاں (10) ۔ سلیمانی چادر


پانی میں روشنی جذب بھی ہوتی ہے اور بکھرتی بھی ہے۔ ہر رنگ کے جذب ہونے کی مقدار الگ ہے اور ان کے ملاپ سے پانی میں روشنی خاص شکل لیتی ہے۔ اگر آپ پانی میں ہیں تو روشنی ترین مقام آپ کے سر کے عین اوپر ہے۔ خواہ سورج کہیں پر بھی ہو۔ اور ایک تسلسل سے روشن سے تاریک کی ڈھلوان گہرائی پر جاتے ہوئے بنتی ہے۔
اگر آپ ایک مچھلی ہیں جسے تاریکی میں چھپنے کیلئے نیچے کو جانا ہے تو کتنا نیچے جانا ہو گا؟ روشنی ہر ڈھائی سو فٹ بعد دسواں حصہ رہ جاتی ہے۔ اس سے لگتا تو ہے کہ زیادہ سفر نہیں کرنا پڑے گا لیکن ایک اور فیکٹر آ جاتا ہے جو کہ آنکھ ہے۔ خاص طور پر سمندر کی گہرائی کی آنکھیں بہت حساس ہیں۔ اور یہ تین ہزار فٹ سے بھی زیادہ گہرائی پر بھی روشنی کا پتا لگا لیتی ہیں۔ یہاں پر انسانی آنکھ کیلئے گھپ اندھیرا ہے۔ اس وجہ سے ان مچھلیوں کو روزانہ بہت سا تیرنا ہوتا ہے۔ اگر کیموفلاج کا کوئی طریقہ مل جائے تو یہ بہت فائدہ دے سکتا ہے۔ آپ سطح کے قریب رہ سکتے ہیں اور بہت سے سفر سے بچ سکتے ہیں۔
لیکن چھپا کیسے جائے؟ کسی بھی سمت سے دیکھا جائے تو آپ پر فوری نظر نہ پڑے؟ اس کا ایک طریقہ تو یہ ہے جو کہ بیشتر مچھلیوں کا ہے جو کہ چاندی رنگ کے سکیل ہیں۔ یہ آئینے کی طرح کے ہیں ارو روشنی کو منعکس کرتے ہیں۔ شکاری سے بچنے میں مددگار ہوتے ہیں۔ اور مچھلیوں کو اوپر سے دیکھا جائے تو یہ زیادہ سیاہ ہوتی ہیں تا کہ نیچے کی تاریکی میں چھپ سکیں۔ اوپر سے زیادہ گہرا رنگ ہونا عام ہے جو کہ انہیں چھپاتا ہے۔
لیکن سفید پیٹ نیچے سے دیکھنے والے سے ہیولا نہیں چھپا سکتا۔ اس کا سائز کم کرنے کا طریقہ جسم کا باریک ہونا ہے۔ مچھلیوں کا اس شکل کا ہونا چھپنے کا طریقہ ہے، نہ کی تیرنے میں مدد ہونے کا۔ جبکہ چھپنے کا ایک اور طریقہ بھی ہے۔ وہ یہ کہ اگر جانور جو روشنی ڈھکتا ہے، اتنی ہی روشنی پیدا کر سکے تو نیچے والے کیلئے بالکل غائب ہو سکتا ہے۔ اور یہ چھپنے کا ایک عام طریقہ ہے۔ اسے counterillumination کہتے ہیں۔ یہ پانی کی ایک موثر سلیمانی چادر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس میں حیرت انگیز یہ ہے کہ اس کے طریقے کئی الگ طرح سے ارتقا پذیر ہوئے ہیں۔ کامیابی سے چھپنے کے لئے جانور کو بالکل اتنی ہی روشنی پیدا کرنا ہے جتنی روشنی اس نے ڈھکی ہو۔ یہ ویسے ہی جیسے دھوپ کے آگے بادل کے آ جانے سے روشنی کم ہو جاتی ہے۔ اگر بادل اتنی ہی روشنی دوبارہ پیدا کر سکے جو اس نے چھپائی ہے تو نیچے نظر نہیں آئے گا۔ جانور کو یہی کام اپنی روشنی سے کرنا ہے تا کہ نیچے والے کو اس کی موجودگی کی خبر نہ ہو سکے۔
لالٹین فش کی آنکھوں کے اوپر ایک فوٹوفور ہے جو کہ اس کی پیمائش کرتا ہے کہ اوپر سے روشنی کتنی ہے اور اس کی اپنی خارج کردہ روشنی اس حساب سے ایڈجسٹ ہوتی ہے۔ کئی دیگر جانوروں میں ایسا کوئی عضو نہیں جو روشنی کا پتا لگائے۔ اس بات کا علم نہیں کہ پھر وہ کیسے روشنی کو میچ کر لیتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ان کی آنکھ ہی یہ کام کر لیتی ہے۔
روشنی کے ساتھ رنگ کو بھی میچ کرنا ہے۔ اور کئی جانروں میں بہت ہی زبردست بصری فلٹر موجود ہیں جو کہ ان کی اپنی روشنی کا سپیکٹرم ایڈجسٹ کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ پس منظر کی روشنی کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کے لئے نہ صرف شدت اور رنگ کا میچ درکار ہے بلکہ سمت کے حساب سے بھی۔ یہ ایک تھری ڈی آرٹ ورک ہے۔
ایسے جانور بہت قسم کے حربے رکھتے ہیں جو کہ سمت کے حساب سے یہ کام کریں۔ یہ روشنی کی اینگولر تقسیم ہے۔ کئی یہ کام عدسوں سے کرتے ہیں، کئی آئینوں سے۔ ہیچٹ فش یہ کام فائبر آپٹکس سے کرتی ہے جو کہ آئینہ والی ٹیوب ہیں جن میں فوٹون مچھلی کے اندر سے سفر کرتے ہیں۔ ان فوٹون کو فوٹوسائٹس پیدا کرتے ہیں اور نچھلی کے نیچے اس کے جامنی فلٹر لگے ہیں۔ ناخن کی طرح کے عضو اس روشنی کو زاویے کے حساب سے شکل دیتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روشنی پیدا کرنے کے لئے بہت توانائی صرف ہو جاتی ہے۔ لیکن اس کا فائدہ یہ ہے کہ ایسے آبی جانوروں کو چھپنے کیلئے زیادہ نیچے نہیں جانا پڑتا۔ اور چونکہ غروبِ آفتاب کے وقت یہ سطح سے قریب ہوتے ہیں تو رات کے بوفے میں ضیافت اڑانے والوں میں آگے ہو جاتے ہیں۔ یہ ضیافت پہلے آؤ، پہلے پاؤ کی بنیاد پر ہے۔ اور یہ روشنی اس میں مدد کرتی ہے۔
جو زیادہ روشنی پیدا کرتے ہیں، وہ بوفے کے میز کے زیادہ قریب ہو سکتے ہیں۔ اور جو توانائی صرف کی ہے، اس کا خرچ پورا کر سکتے ہیں۔ اور یہ وہ توازن ہے جو جانور کو روکھنا ہے۔
یہی زندگی کا ڈیزائن ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر ہمیں اپنے سیارے کی زندگی کو سمجھنا ہے تو اس کا مزید مشاہدہ کرنا ہے، خاص طور پر اس کے نیلے قلب میں۔ یہاں پر روشنی کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ اور ہم اس کردار کے بارے میں اچھی معلومات نہیں رکھتے۔ زمین اپنی محور کے گرد گھومتی ہے۔ اس گردش سے اس کی سطح پر پڑنی والی روشنی کا اتار چڑھاؤ ہوتا ہے۔ سمندر کی لہروں اور جدوجزر کے علاوہ اس روشنی کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ آہنگ رکھنے والا مخلوقات کی زندگی کا رقص سمندر کی گہرائیوں میں جاری رہتا ہے۔ اگر دھوپ سے اس قدر فرق پڑتا ہے تو پھر حیاتیاتی روشنی کا کیا اثر ہو گا؟ زندہ روشنیاں سمندر کی گہرائیوں میں دھوپ سے زیادہ اہم ہیں کیونکہ یہاں دھوپ کا گزر نہیں۔
ان کا گہرائی سے مشاہدہ کرنے کے کیلئے کچھ نیا درکار تھا۔ ایک سوال یہ ہے کہ جب ہم نہیں ہوتے تو یہ روشنیاں کیسی ہوتی ہیں؟
(جاری ہے)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں