زمین پر روشنی کا منبع سورج ہے۔ سائنسدان اس بات سے واقف ہیں کہ دھوپ جانداروں پر کس قدر اثر رکھتی ہے۔ ساخت، رویے اور ایکوسسٹم کی مطابقت سورج کی روشنی سے ہے۔
سمندر کی گہرائی کی تاریکی میں حیاتیاتی روشنی بہت ہے۔ ایسے جاندار بہت ہیں جو آنکھیں رکھتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں پر بھی روشنی کا اثر ہے۔ لیکن کیسے؟ بحری بصریات کا شعبہ دھوپ کے سمندر میں فیلڈ کی وضاحت تو کرتا ہے لیکن حیات کی روشنی کا یہ شعبہ اور اس کا جانوروں پر اثر اس وقت بڑی حد تک نامعلوم ہیں۔
پہلی بار 1950 کی دہائی میں روشنی محسوس کرنے والے ڈیٹکٹر سمندر میں اتارے گئے تھے جو کہ روشنی کی پیمائش کریں۔ اس کا مقصد دھوپ کی پیمائش کرنا تھا لیکن جب یہ ایک ہزار فٹ سے زیادہ گہرائی میں گئے تو ان کے نتائج نے حیران کر دیا۔ سائنسدان فلیش ریکارڈ کر رہے تھے۔ پہلے سائنسدان یہ سجھے کہ یہ آلات کی خرابی ہے لیکن پھر انہیں محسوس ہوا کہ یہ حیاتیاتی روشنی ہے۔ چمکدار فلیش تھے اور بہت سے تھے۔ دو ہزار فٹ کی گہرائی میں گئے تو اس جگہ پر دھوپ کی مقدار سے ایک ہزار گنا روشنی وہ تھی جو کہ جاندار پیدا کر رہے تھے۔ اور ایک سو سے زائد فلیش فی منٹ ہو رہے تھے۔ جیسے کسی آتش بازی کا مظاہرہ ہو رہا ہے۔ لیکن یہ چل کیا رہا تھا؟ یہ ان کے لئے سوال تھا۔
بہت سے تحقیقاتی مقالے لکھے گئے جو کہ ان کی فریکونسی اور دن کے مختلف اوقات میں ان کی نوعیت کو قلمبند کرتے تھے۔ متلاطم سمندر میں ان کی تعداد پرسکون سمندر کے مقابلے میں زیادہ تھی۔ لیکن ان کی موجودگی کی وجوہات کا پتا لگانا بہت مشکل تھا۔
اس سوال کی اہمیت دو وجوہات سے تھے۔ ایک سائنسی اور دوسرا عسکری۔
سائنسی سوال یہ ہے کہ اگر ہم دنیا میں جانداروں کے رہنے کی سب سے بڑی جگہ پر بسنے والوں کو سمجھنا چاہتے ہیں، ان کی زندگی اور دنیا سے واقفیت لینا چاہتے ہیں تو یہ روشنی اس میں راہنمائی کرتی ہے۔
عسکری سوال یہ تھا کہ امریکی بحریہ سمندر کے نیچے لیزر کی مدد سے مواصلاتی رابطہ کرنے کے بارے میں پلان کر رہی تھی۔ وہ اس پر تحقیق کر رہے تھے کہ یہاں پر سگنل اور شور کا تناسب کیا ہو گا۔ جانداروں سے نکلنے والا یہ بصری شور ایسے رابطے میں آڑے آ سکتا تھا۔
چونکہ یہ عسکری لحاظ سے متعلقہ سوال تھا، اس لئے اس پر تحقیق کو فنڈنگ مل گئی۔ سمندر کی مہم جوئی کو ملنے والے تحقیقاتی فنڈ خلائی تحقیق کے مقابلے میں بہت ہی کم ہیں۔ اگر عسکری مقاصد نہ ہوتے تو حیاتیاتی روشنی کو ملنے والی فنڈنگ شاید صفر ہوتی۔ سائنسدانوں کی خوش قسمتی یہ رہی قسمت یہ رہی کہ سوویت یونین نے بھی سمندری خاموش رابطوں کی تحقیق کے لئے اس طرف دلچسپی کا اظہار کیا۔ سوویت یونین نے تو اس طرف خاطر خواہ کام نہیں کیا لیکن سرد جنگ کے تناظر میں 1984 میں ایسی تحقیق کے لئے گاڑی تیار ہوئی جو کہ خود انجینرنگ کا کارنامہ تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گہرائی میں اگر غوطہ خور گاڑی میں بالکل سکون ہو تو سمندر میں بھی بالکل تاریکی ہے۔ لیکن یہ ایسا ہے جیسے بارودی سرنگوں کا میدان ہو۔ معمولی سی حرکت سب کو چھیڑ دیتی ہے۔
اگر آپ ایک اندھیرے ہال میں بند ہیں۔ آپ کے سامنے ڈوروں پر سیب لٹکے ہیں۔ اگر آپ انہیں تلاش کر کے کھائیں گے نہیں تو بھوکے مر جائیں گے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اسی ہال میں ایک سیاہ بھوکا چیتا بھی ہے۔ آپ اسے نہیں دیکھ سکتے اور وہ آپ کو۔ آپ محفوظ ہیں۔ اگر آپ حرکت کریں تو ہال میں ڈوریوں سے لٹکی ہوئی چھوٹی سی روشنیاں بھی جل اٹھیں گی۔ چیتے کو آپ کی جگہ کا علم ہو جائے گا اور آپ چیتے کا لقمہ بن جائیں گے۔
ایسی دنیا میں کیسے رہا جائے گا؟ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ اپنی روشنی پیدا کریں جو کہ حملہ آور کی آنکھ کو خیرہ کر دے، اس کی توجہ بٹ جائے اور آپ فرار ہو سکیں۔ کئی جاندار ایسا کرتے ہیں۔ کئی کوکیپوڈ روشنی کے بادل اپنی دم سے چھوڑتے ہیں۔ کچھ شرمپ ہیں جو کہ اپنے منہ کی مائع سے تیر روشنی کا اخراج کرتی ہیں۔ کچھ سوئڈ ہیں جو کہ نیلی روشنی کے تارپیڈو فائر کرتی ہیں۔ ایسی مچھلیاں بھی ہیں جو کہ چمکتے ذرات پانی میں بکھیر دیتی ہیں۔ ایسی مثال ٹیوب شولڈر کی ہے۔ یہ اس بارودی سرنگوں کے میدان کے چھپن چھپائی کی کھیل کے حربے ہیں۔
لیکن بہت کچھ اور بھی ہے۔
(جاری ہے)
Post Top Ad
Your Ad Spot
جمعہ، 17 جنوری، 2025
زندہ روشنیاں (11) ۔ آتش بازی
Tags
Below the Edge of Darkness#
Share This
About Wahara Umbakar
Below the Edge of Darkness
لیبلز:
Below the Edge of Darkness
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
رابطہ فارم
Post Top Ad
Your Ad Spot
میرے بارے میں
علم کی تحریریں۔ مجھے امید ہے کہ میری یہ کاوش آپ سب کو پسند آئے گی اگر آپ نے میری اس کاوش سے کچھ سیکھا ہو یا آپ کے لئے یہ معلومات نئی ہوں تو اپنی رائے کا اظہار ضرور کیجیئے گا۔ شکریہ
۔
وہارا امباکر
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں