جب جانوروں کے چھٹی حس رکھنے کی بات ہوتی تھی تو میں ہمیشہ تھوڑا سا شکوک و شبہات کا شکار رہتا تھا۔ بہت سی انواع میں انفرادی حواس ہمارے مقابلے میں زیادہ حساس ہوتے ہیں—لیکن کیا وہ واقعی اتنے زیادہ ہو سکتے ہیں کہ آنے والی قدرتی آفات کے تقریباً ناقابل ادراک اشارے بھی پکڑ سکیں؟ آج، میں مانتا ہوں کہ یہ “چھٹی حس" جنگل میں بقا کے لیے ایک ضروری آلہ ہے،
کون کسی آتش فشاں کے پھٹنے کے بعد اس کے لاوے تلے دفن ہونا چاہے گا؟ بکریاں اس بارے میں خاص صفت رکھتی ہیں۔ میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ کے مارٹن وکیسکی نے اس کا پتا لگایا۔
سسلی کے آتش فشاں ماؤنٹ ایٹنا پر بکریوں کے ریوڑ پر جی پی ایس ٹرانسمیٹر لگانے کے بعد، انہوں نے محسوس کیا کہ کئی دن ایسے تھے جب ریوڑ اچانک بے چین ہو گیا، گویا کوئی انہیں پریشان کر رہا ہو۔ جانور ادھر ادھر بھاگتے اور جھاڑیوں کے نیچے یا درختوں کے پیچھے چھپنے کی کوشش کرتے تھے۔ ہر بار، چند گھنٹوں بعد، آتش فشاں بڑی مقدار میں لاوا اگلتا تھا۔ ریوڑ نے معمولی اگلنے کے لیے کوئی قابل ذکر ابتدائی اشارے نہیں دیے۔ بکریوں کو کیسے معلوم ہوا کہ کیا ہونے والا ہے؟ بدقسمتی سے، محققین کے پاس ابھی تک اس سوال کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں ہے۔ ان کا خیال یہ ہے کہ اس کا تعلق پھٹنے سے عین پہلے زمین سے نکلنے والی گیسوں سے ہے۔
جرمن جنگلات میں بھی جانور اسی طرح کے خطرات سے آگاہ ہیں۔ آتش فشاں کی سرگرمی وسطی یورپ میں ہر جگہ ایک مسئلہ ہے، اور آپ اس کے آثار ایفل میں بھی دیکھ سکتے ہیں، جہاں میں رہتا ہوں۔ قدیم آتش فشاں پہاڑ منظر کا حصہ ہیں اور چند نوجوان آتش فشاں بھی ان کے ساتھ ہیں۔ نوجوان کا مطلب یہ ہے کہ آخری بار آتش فشاں تیرہ ہزار سال پہلے پھٹا تھا، اور یہ کسی بھی وقت دوبارہ پھٹ سکتا ہے۔ تب اس نے 3.8 مکعب میل ملبہ اور راکھ ہوا میں اگلی تھی۔ پتھر کے زمانے کی بستیوں کو ہلا دیا، اور دھول کے بادل بنائے جو سویڈن تک سورج کو دھندلا گئے۔ لہذا یہ ایک ایسا خطرہ ہے جسے سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے۔ اگرچہ ہماری زندگیوں میں ایسا ہونے کا امکان زیادہ تو نہیں لیکن یہ خطرہ اصل بھی ہے اور بڑا بھی۔
جہاں میں رہتا ہوں، وہاں جنگل کی چیونٹیاں کچھ محققین کی توجہ کا مرکز ہیں۔ ڈوئسبرگ یونیورسٹی کے پروفیسر الریچ شریبر اور ان کی ٹیم نے ایفل میں تین ہزار سے زیادہ چیونٹیوں کے ٹیلوں کا نقشہ بنانے کے لیے بہت محنت کی ہے۔ انہوں نے چیونٹیوں کے ٹیلوں کی جگہ اور آتش فشاں پھٹنے اور زلزلوں کی وجہ سے زمین کی پرت میں fault کے درمیان ایک حیرت انگیز تعلق دریافت کیا۔ ان خلل کی لکیروں کے چوراہے پر، انہوں نے چیونٹیوں کے ٹیلوں کا ارتکاز پایا۔ ان جگہوں پر زمین سے نکلنے والی گیس کی ساخت آس پاس کی ہوا کی ساخت سے کچھ مختلف تھی۔ سرخ چیونٹیاں اس کو پسند کرتی ہیں اور ان جگہوں پر اپنے گھر بنانا پسند کرتی ہیں۔ سائنسدانوں کے پاس ابھی تک بکریوں کے معمے کا جواب نہیں ہے، اور نہ ہی وہ جانتے ہیں کہ چیونٹیوں کو یہ جگہیں کیوں پسند ہیں۔ ایک بات جو واضح ہے وہ یہ ہے کہ چیونٹیاں گیسوں کے ارتکاز میں چھوٹے فرق کو سونگھ سکتی ہیں، بالکل اسی طرح جیسے بکریاں سونگھ سکتی ہیں، اور اس سے متعلق متعدد شواہد موجود ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ جانور فطری طور پر لوگوں کی نسبت اپنے ماحول کے لیے زیادہ حساس ہوتے ہیں؟ کیا ان کی حساسیت انسانوں سے زیادہ ہے۔ اس کا دلچسپ جواب ہے کہ “نہیں، ایسا نہیں ہے”۔
(جاری ہے)
Post Top Ad
ہفتہ، 29 مارچ، 2025
حیوانات کی دنیا (43) ۔ چھٹی حس
Tags
Inner Life of Animals#
Share This
About Wahara Umbakar
علم کی تحریریں۔ مجھے امید ہے کہ میری یہ کاوش آپ سب کو پسند آئے گی اگر آپ نے میری اس کاوش سے کچھ سیکھا ہو یا آپ کے لئے یہ معلومات نئی ہوں تو اپنی رائے کا اظہار ضرور کیجیئے گا۔ شکریہ
۔
وہارا امباکر
لیبلز:
Inner Life of Animals
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں