باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

منگل، 20 اگست، 2019

انسانی فطرت



انسانی تاریخ میں آراء کی جنگ بلند آواز سے، ذاتی حملوں سے، غلط بیانی سے اور اس سے بھی زیادہ بری چیزوں سے لڑی جاتی رہی ہیں۔ سائنس کی جنگ میں البتہ لوگوں کے بجائے خیالات پر حملہ کیا جاتا ہے اور اس میں سیاسی نظریات کو الگ رکھا جاتا ہے لیکن اس میں ایک استثنا ہے۔ نظامِ شمسی کے بننے سے لے کر چھپکلی کی کلاسیفیکیشن تک سب ٹھیک چلتا رہتا ہے، لیکن  جب یہ انسانی فطرت کی طرف بڑھنا شروع ہو جائے تو دیکھنے والوں کا اس پر ہونے والی دریافتوں پر ری ایکشن بدلنا شروع ہو جاتا ہے۔ بھنویں تننا شروع ہو جاتی ہیں۔ جذبات کو ترجیح ملنا شروع ہو جاتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رچرڈ ہرنسٹین نے 1971 میں ایک آرٹیکل لکھا جس میں بات کی گئی تھی کہ معاشرہ بدل رہا ہے، شادیوں میں اب نسل، ذات، خاندان، دولت جیسی صوابدیدی لکیریں ختم ہو رہی ہیں۔ ٹیلنٹ یہ طے کرتا ہے کہ کس کی معاشرے میں کتنی عزت اور مقام ہو گا۔ ٹیلنٹ کا تعلق ذہانت سے ہے اور ذہانت کا کچھ حصہ وراثت میں آتا ہے۔ زیادہ ذہین لوگ زیادہ ذہین لوگوں سے شادی کریں گے۔ ان کے بچے زیادہ سمارٹ ہوں گے اور اس طرح ایک منصفانہ معاشرے میں نئی تقسیم زیادہ اور کم سمارٹ لوگوں کی جینیاتی لکیروں کی بنیاد پر ہونا شروع ہو جائے گی۔

اس پر ردِ عمل: ہرنسٹین پر الزام لگایا گیا کہ وہ اصل میں منصفانہ معاشرہ نہیں چاہتے اور نسل پرست ہیں۔ بااثر ماہرِ نفسیات ایلون پوسینٹ نے آرٹیکل لکھا کہ ہرنسٹین کی مراد یہاں پر یہ ہے کہ سیاہ فام لوگ کم آئی کیو رکھتے ہیں اور آگے چل کر یہ فرق مزید بڑھتا جائے گا (یہ غلط بیانی تھی)۔ ہرنسٹین پر کڑی تنقید کی۔ معاملہ آگے بڑھا۔ اشتہارات شائع ہوئے کہ “ہارورڈ کے فاشسٹ پروفیسر کے جھوٹ کو بے نقاب کرو”۔ دھمکیاں دی گئیں۔ آئی کیو تنازعے کی وجہ سے ان کے لیکچر منسوخ ہو گئے۔ یونیورسٹوں نے ان کو بلانے سے انکار کر دیا کہ وہ ان کی حفاظت کی گارنٹی نہیں دے سکتیں۔ پرنسٹن یونیورسٹی میں ان کے لیکچر کے دوران طلباء نے دروازے بند کر دئے کہ پہلے وہ اپنی صفائی پیش کریں۔

کیا ان کا دعویٰ سائنسی بنیاد پر ٹھیک تھا یا نہیں؟ اس تنازعے میں اس کی اہمیت ثانوی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پال ایکمین نے اپنی کتاب لکھی جس میں دنیا بھر کے لوگوں کی مشترک عادات کے بارے میں لکھا گیا تھا۔ مسکراہٹ، اداسی، زیرِ لب مسکراہٹ، تکلیف میں تاثر جیسے کئی چہرے کے تاثرات پر سٹڈی کی گئی کہ یہ دنیا کے ہر کلچر میں ایک ہی طرح کے ہیں اور ہر کوئی ان کو سمجھ لیتا ہے۔ بہت سے تاثرات انسانی فطرت کا حصہ ہیں۔

اس پر ردِ عمل: مارگریٹ میڈ، جو صفِ اول کی سوشل سائیکلولوجسٹ ہیں، انہوں نے اس کو افسوسناک، طیش دلانے والے اور ذلت آمیز خیالات قرار دیا۔ اور مارگریٹ میڈ کا یہ مضمون ذرا نرم تنقید کرنے والوں میں سے تھا۔ امریکی اینتھروپولوجسٹ ایسوسی ایشن کی سالانہ کانفرنس میں جب وہ تقریر کرنے اٹھے تو سامعین میں سے کسی نے اٹھ کر ان کو فاشسٹ کہا اور ان کے تقریر کرنے پر احتجاج کیا۔ ایک اور وقت میں ایک سیاہ فام ایکٹیوسٹ نے ان پر نسل پرست ہونے کا الزام لگایا کہ وہ ان کے دعویٰ کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کہا جائے کہ سیاہ فام اپنی الگ شناخت نہیں رکھتے، سفید فام لوگوں جیسے ہیں۔ یہ ان کی نسلی شناخت ختم کرنے کے لئے لکھا گیا ہے۔

کیا ان کا دعویٰ سائنسی بنیاد پر ٹھیک تھا یا نہیں؟ اس تنازعے میں اس کی اہمیت ثانوی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہاں تک کہ جب ڈیوڈ ہیوبل نے یہ لکھا کہ بلیوں کا بصری نظام پیدائش کے وقت مکمل ہوتا ہے، وہ اپنی شخصیت لے کر پیدا ہوتی ہیں۔ اس پر بھی نیوروسائنٹسٹ تھے جنہوں نے ہیوبل کو فاشسٹ کہا۔ فطرت کو بائیولوجی کے ساتھ جوڑنا کئی بار نازک جذبات چھیڑتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک اور بڑا تنازعہ ای او ولسن کی کتاب سوشیوبائیولوجی نے کھڑا کیا۔ یہ جانداروں کی آپسی رابطے، ان کی بچوں کے ساتھ سلوک، جارحانہ رویے اور دوسری بہت سے اطوار پر لکھی گئی تھی۔ کیڑوں، مچھلیوں، پرندوں کی بہت سے انواع پر اس کو لکھا گیا تھا۔ اس میں 27واں باب انسانوں کے بارے میں تھا۔ کیا چیزیں یونیورسل ہیں اور کیسے آتی ہیں۔ اخلاقی احساس کیسے پیدا ہوتا ہے۔ اور پھر آخری باب میں انہوں نے امید ظاہر کی تھی کہ ان کا کام سوشل سائنس اور بائیولوجی کے درمیان تعلق پیدا کرنے کے لیے پیشرفت میں مددگار ہو گا۔

اس کا ردِ عمل: اس پر ساہلنز نے “بے ہودہ سوشیوبائیولوجی” نے عنوان سے تنقیدی کتاب لکھی۔ کلچر اور بائیولوجی الگ ہیں، الگ رہیں گے۔ جینیات سے کلچر کا کوئی تعلق نہیں۔ پھر اس کے بعد بائیولوجسٹ سی ایچ ویڈنگٹن نے “سوشیوبائیولوجی کے خلاف” کے عنوان سے کتاب لکھی جس کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ ایسے خیالات سوشل ڈارون ازم، یوجینکس کی طرف لے جائیں گے۔ اس پر پیلیونٹیولوجسٹ سٹیفن گولڈ اور ماہرِ جینیات رچرڈ لیوونٹن نے اپنے دستخط بھی کئے۔ اس میں الزام لگایا گیا کہ اگر ان کو آگے بڑھایا گیا تو جینوسائیڈ اور غلامی جیسے اداروں کو بھی جواز مل جائے گا۔ کیونکہ یہ بھی تو انسان کی فطرت کا ہی حصہ ہیں۔ ایک اور بائیولوجسٹ نے تبصرہ کیا یہ کتاب نازی جرمنی کا دور واپس لانے کی کوشش ہے۔

ولسن کی کتاب میں کا رد جذبات سے اور شخصی حملوں سے کیا گیا۔ ولسن کی کتاب میں کمزوریاں تھیں لیکن رد کرنے والی کتابوں کی تو کوئی سائنسی بنیاد ہی نہیں تھی۔ ولسن پر لگائے گئے نسلی اور صنفی تعصب کے الزامات، ان کو عدم مساوات، غلامی اور قتلِ عام کے سپورٹر کے طور پر پیش کرنا نہ صرف غلط تھا بلکہ غیرذمہ دار بھی۔

ہارورڈ میں ان کے خلاف پمفلٹ تقسیم ہوئے، مظاہرین نے ان کے لیکچرز میں خلل ڈالا، ان کی تقریر کے دوران باجے لے کر آ جاتے۔ ان کے کلاس روم میں شور مچاتے طلباء کے احتجاج ہوئے۔ جب وہ سائنس کے ایک سیمینار میں تھے، ان کا چہرہ سواسٹیکا پر بنائے گئے بینرز اٹھائے مظاہرین نے ان پر سرد پانی کی بالٹی الٹا دی۔ ولسن اس وقت وہیل چئیر پر بیٹھے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ٹیرنس ٹرنر اور لیسلی سپونسل کی 2000 میں لکھی کتاب جس میں انہوں نے یانومامو کے قبیلے کو سٹڈی کیا تھا۔ یہ کتاب بھی انسانی فطرت پر تھی۔ جارحانہ پن اور مردوں کا کثرتِ اوزاج ہونا انسانی فطرت قرار دیا گیا تھا۔ تشدد کی نفسیات پر لکھا گیا تھا۔ اس پر ہونے والا ری ایکشن بھی اسی طرح شدید تھا۔ غلط بیانی، شخصی حملے اور یہاں تک کہ ان کو قاتل کہا گیا۔ لڑائیوں جھگڑوں کو سٹڈی کرتا معیوب قرار دیا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انسانی فطرت کو پڑھنے میں جذباتیت ہر قسم کے نظریاتی لوگوں سے آتی ہے۔ اپنے نظریات، احساسات اور جذبات کو سائنس میں ملانا کبھی بھی دانشمندی نہیں رہی لیکن جب بات اپنے آپ کو پڑھنے پر ہو ۔۔۔ اس کو الگ رکھنا، ذرا مشکل ہو جاتا ہے۔

رائٹ ونگ خیالات رکھنے والوں سے۔ جو انسان کو جسم سے ماورا سمجھنا چاہتے ہیں۔ ایک ایسی مشین جس میں وہ خود ہیں ہی نہیں۔ اگر وہ خود اس مشین میں ہیں ہی نہیں تو پھر انسانی فطرت کو بائیولوجی سے نہیں پڑھا جا سکتا۔۔۔۔
اگر ان جینز، اس سے بننے والے ذہن اور یہ سب بائیولوجی اس قدر شاندار اور پیچہدہ ہے کہ ہم تصور بھی نہیں کر سکتے کہ اس کے قریب قریب  کی کوئی چیز کبھی بھی بنا پائیں گے۔ یہ سب بے کار نہیں۔ جینیات آگے منتقل ہوتی ہیں۔ یہی اس سب سٹرکچر کو اور اس دماغ کو بناتی ہیں۔ یہیں پر انسانی فطرت ہے۔ یہ اسی بائیولوجی سے ہی نکلتی ہے۔


لیفٹ ونگ خیالات رکھنے والوں سے۔ اگر انسانی فطرت کو تسلیم کر لیا جائے تو پھر مساوات کا خیال ڈھیلا پڑنا شروع ہو جاتا ہے۔ اگر لوگوں میں فرق ہیں تو پھر مساوات کیسے قائم کی جائے گی۔ اس طرح کے خیالات رکھنے والوں کے لئے صنفی، نسلی یا کسی بھی طرح کے تعصب کو ختم کرنے کے لئے انسانی فطرت کا انکار ضروری ہے۔ ہر کوئی سب کچھ کر سکتا ہے۔ صرف ٹھیک ماحول ملنا چاہیے۔۔۔۔
انسانوں کو زبردستی برابر کرنا جب کہ وہ نہیں ہیں، غلط طرزِ عمل ہے۔ سوشلسٹ یوٹوپیا کی سوشل انجینیرنگ کی کوشش اسی سوچ کے تحت کی گئی تھی۔ ہر  طرح کے سماجی انصاف کے پراجیکٹس کے مضر اثرات واضح ہیں۔ آج کل لڑکوں اور لڑکیوں کو زبردستی ایک جیسا ٹریٹ کرنے کے اثرات واضح ہیں۔ تعصب نہ برتنا اور انسانی فطرت کا انکار ایک چیز نہیں ہوتی۔ انسانی فطرت کا انکار کر دینا مسائل حل کرنے کے لئے ضروری نہیں۔

ڈیٹرمنزم سے خائف لوگوں سے۔ جینز انسانی کردار متعین کرتی ہیں۔ اگر اربوں سال سے ہونے والے فطری چناوٗ کے ذریعے یہاں تک ہنچے ہیں تو پھر تو ہم ایسے ہی ہیں اور ایسے ہی رہیں گے۔ اگر ہم بدل ہی نہیں سکتے تو پھر کسی بھی چیز کا کیا فائدہ؟
کوئی بھی بائیولوجسٹ جینیاتی ڈیٹرمنزم پر یقین نہیں رکھتا۔ “جینیات ہماری فطرت کے بڑے حصے کی وضاحت کر دیتی ہیں” اور “جینیات ہماری فطرت کی مکمل وضاحت کر دیتی ہیں” میں بہت فرق ہے۔ دوسرے کے غلط ہونے کا مطلب پہلے کا غلط ہونا نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انسانی فطرت کی سائنس کو بڑا نقصان اس سمجھ سے پہنچا ہے کہ “جو فطری ہے، وہ ٹھیک ہے”۔ اور ہر طرح کے نظریاتی لوگ اس دلیل کو استعمال کرتے  ہیں۔ اگر کوئی مردوں کی کثرتِ ازواج کو ٹھیک کہنا چاہتا ہے تو انسانی فطرت کی طرف اشارہ کر دیتا ہے کہ یہ تو جینز میں لکھا ہے، فطری ہے، پس ٹھیک ہے۔ اگر کوئی ہم جنس پرستی کو ٹھیک کہنا چاہتا ہے تو انسانی فطرت کی طرف اشارہ کر دیتا ہے کہ یہ تو جینز میں لکھا ہے، فطری ہے، پس ٹھیک ہے۔ ٹھیک یا غلط کی کسی بھی بحث سے قطع نظر، فطرت یا جینز رویے کے بارے میں بحث میں کسی قسم کی دلیل ہے ہی نہیں۔ قابلِ قبول رویوں کی بحث ہی اس سب سے الگ ہے۔ نظریاتی لوگ اپنی نظریات کے حق میں اچھے دلائل دے سکتے ہوں گے۔ قتل کرنا بھی فطرت ہے، ریپ کرنا بھی فطرت ہے، انتقام بھی فطرت ہے۔

جس طرح اس پر کسی نے کہا تھا کہ “اگر آپ مجھے تھپڑ مار کر یہ کہیں گے کہ اس کی وجہ میری متشدد فطرت ہے، تو میں آپ کی بات تسلیم کر لوں گا۔ اگر جوابی مکے سے آپ کے دانت ٹوٹ گئے تو آپ کو بھی یہی تسلیم کرنا پڑے گا۔ انتقام میری فطرت ہے”۔

وجہ جواز نہیں ہوتی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انسانی فطرت کو پڑھنے پر ہونے والی الجھن بھی فطری ہو گی لیکن یہاں پر ہر ایک کے نازک جذبات سے قطع نظر انسانی فطرت کا ایک بڑا حصہ جینز سے آتا ہے۔ جینز کی آج کی شکل اربوں برس کے ارتقا کا نتیجہ ہے۔ جینز میں ہمارا آفاقی پروگرام بھی ہے، جو سب انسانوں میں ایک سا ہے اور یہ انسانی فطرت کا بہت بڑا حصہ ہے۔ گروہی پروگرام بھی ہیں۔ اور پھر انفرادی پروگرام بھی۔ انہی کی طرح ہماری اپنی فطرت باقی سب جیسی ہے اور کچھ منفرد بھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انسانی فطرت میں کیا ہے؟ سبھی کچھ جو انسان کرتے ہیں۔ قتل و غارت، حسد، دھوکے، فریب، جھوٹ، تعصب، جنگ و جدل، ظلم؟ جی، لیکن اس کے علاوہ بھی۔ ایثار، قربانی، انصاف، ہمت، جستجو، علم، تجسس، دوستی۔ یہ سب اس فطرت کا حصہ ہے۔

اسے جس زاویے سے بھی دیکھنا چاہیں، اس کا نکلنے والا نتیجہ آج کی دنیا ہے۔ بڑے پیمانے پر اتحاد بنا لینا، سب کا مل کر انسانی حقوق پر اتفاق کر لینا۔ بدترین دشمن کے ساتھ بیٹھ کر بھی معاملات طے کرنے کی صلاحیت۔ کسی بھی اور جاندار سے زیادہ امن و امان سے رہنا۔ دوسری انواع کے حقوق کا بھی خیال۔ فکر کرنا۔ علم کی جستجو۔ اچھے مستقبل کی لگن۔ یہ سب کہاں  سے آتا ہے؟ کیسے ہوتا ہے؟ یہ انسانی فطرت کی سٹڈی ہے۔ اس کو پڑھنے سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہم اتنے برے نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ اس کتاب سے
Blank Slate: The Modern Denial of Human Nature: Steven Pinker

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں