امریکہ نے اس جنگ میں پاکستان کی خدمات کی قیمت چالیس کروڑ ڈالر لگائی تھی جو “مونگ پھلی” کہہ کر رد کر دی گئی تھی۔ بات 3.2 ارب ڈالر کی امداد اور ایف 16 کی خریداری سمیت بھاری عسکری ساز و سامان خریدنے کی اجازت کے عوض طے ہوئی تھی۔ پاکستان کی نظر صرف مغرب کی سمت والے ہمسائے پر ہی نہیں تھی۔ مشرق پر بھی تھی۔
سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم کیسی نے جنوری 1984 کو صدر ریگن اور کابینہ کو سوویت افغان جنگ پر پراگرایس رپورٹ پیش کی۔ چار سال پہلے کراچی میں لی اینفیلڈ رائفلز کا پہلا کنٹینر پہنچا تھا۔ کیسی نے بتایا کہ ان برسوں میں سترہ ہزار سوویت فوجی ہلاک یا زخمی کئے جا چکے ہیں۔ مجاہدین اب افغانستان کا 62 فیصد علاقہ کنٹرول کرتے ہیں۔ سوویت یونین ساڑھے تین سو سے چار سو کے درمیان جہاز گنوا چکا ہے۔ مجاہدین 2750 ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں تباہ کر چکے ہیں۔ 8000 جیپیں اور دوسری گاڑیاں تباہ کی جا چکی ہیں۔ سوویت یونین اس جنگ پر بارہ ارب ڈالر خرچ کر چکا ہے۔ اس تباہی کو خریدنے کے لئے امریکی ٹیکس دہندگان کا خرچہ دو سو ملین ڈالر آیا ہے۔ جبکہ اتنا ہی خرچ سعودی عرب کی خفیہ ایجیسنی جی آئی ڈی کے پرنس ترکی نے کیا ہے۔
یہ چونکا دینے والے اعداد و شمار تھے۔ اس سے سستی اور موثر جنگ نہیں کی جا سکتی تھی۔ پاکستان نے اس میں اپنا کردار ادا کرنے کیلئے ایک شرط رکھی تھی۔ وہ یہ کہ امریکہ براہِ راست اس جنگ میں کچھ نہیں کرے گا۔ کس افغان گروپ کو کتنی سپورٹ کرنی ہے۔ یہ آپریشن کس طریقے سے کئے جانا ہے۔ کون ہتھیاروں کا حقدار ہو گا۔ امریکہ میں مداخلت نہیں کرے گا۔ اس کو پلان پاکستانی ایجنسی کرے گی۔ سی آئی اے کا کوئی بھی فرد افغانستان نہیں جائے گا۔ سی آئی اے نے بخوشی اس کو قبول کر لیا تھا۔ وہ خود بھی پیچھے رہنا چاہتے تھے۔ اگر براہِ راست امریکہ کے ملوث ہونے کے شواہد مل جاتے تو بات بڑھ سکتی تھی۔ سرد جنگ کے دو نیوکلئیر حریفوں کے درمیان یہ سنگین مسئلہ بن سکتا تھا۔ ان کو اس سے بھی دلچسپی نہیں تھی کہ کون کہاں پر جائز منافع کما رہا ہے اور کون دودھ پر سے ملائی زیادہ ہی اتار رہا ہے۔ وہ بینک آڈیٹر نہیں تھے۔ ان کو غرض نتائج سے تھی۔ یہ سرمایہ کاری ان کو بڑی کم قیمت میں وہ دے رہی تھی جو ان کو مطلوب تھا ۔۔۔ مردہ روسی فوجی۔ بہت سے مردہ روسی فوجی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس بنیاد پر وہ حاصل کر لیا جو کیس مانگتے آئے تھے۔ مزید بجٹ اور زیادہ اختیارات۔ اکتوبر 1984 میں اس بجٹ میں بڑا اضافہ کر دیا گیا۔ سعودی ایجنسی کی طرف سے بھی اتنا ہی اضافہ ہونے کے بعد اب اس جنگ کے مقاصد تبدیل ہو رہے تھے۔ امریکہ نے اس میں اپنا حصہ اس امید پر ڈالنا شروع کیا تھا کہ سوویت یونین کے لئے یہ جنگ مہنگی ہو جائے گی۔ اب مقاصد کا دائرہ وسیع ہو سکتا تھا۔
جنگ کے ابتدائی سالوں میں پاکستان کو خوف تھا کہ اگر کارروائی زیادہ شدید کی گئی تو ایسا نہ ہو کہ سوویت یونین براہِ راست پاکستان میں کوئی آپریشن کر دے۔ اس لئے صدر کی طرف سے بار بار یہ کہنے کو ملتا تھا کہ افغانستان کی ہانڈی ہلکی آنچ پر پکانی ہے۔ ایسا نہ ہو کہ کہیں ابل کر گر جائے۔ سوویت یونین کی صلاحیت بری طرح متاثر ہوئی تھی۔ اب اعتماد آ گیا تھا کہ سوویت فوج کے لئے یہ کرنا ممکن نہ ہو گا۔ حملوں میں شدت لائی جا سکتی تھی۔
اس سال کے آخر میں سی آئی اے کے چیف نے سب سے پہلی مرتبہ افغان مجاہدین کی ٹریننگ کیمپ کا دورہ جنرل اختر عبدالرحمٰن کے ہمراہ کیا۔ ٹریننگ کے لئے آئے رنگروٹوں سے تقریر کرتے ہوئے اب الفاظ یہ کہے جاتے تھے، “کابل کو جلنا ہو گا”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ضیا الحق اگرچہ دیندار تھے لیکن ایرانی حکومت یا سعودی عرب کے اخوان کے انداز کے ریڈیکل نہیں تھے، کالونیل دور میں تربیت یافتہ موقع شناس سیاستدان تھے۔ پاکستان اس وقت خود کو دنیا میں تنہا محسوس کر رہا تھا۔ نہ ہی سوویت بلاک میں تھا اور امریکہ سے تعلقات بھی سردمہری کا شکار تھے۔ انڈیا سے جنگ میں ہزیمت اٹھائے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا۔ جدید ہتھیار اس کو نہیں مل رہے تھے۔ نیوکلئیر پروگرام روکنے کے حوالے سے عالمی دباوؐ تھا۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر دنیا کی طرف سے پریشر تھا۔ دوسری طرف، پاک افغان تنازعہ پرانا تھا۔ ایک خطرہ یہ نظر آ رہا تھا کہ کابل کے کمیونسٹ افغان اور پاکستان پشتوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ علیحدگی پسند تحریک شروع ہو سکتی ہے۔ ایک اور مسئلہ انہیں افغانستان میں پاکستان مخالف اور جارحانہ عزائم رکھنے والی حکومت کے آ جانے سے تھا اور انڈیا کے یہاں پر اثر سے تھا۔ قومی سلامتی، پڑوسی ملک سے غیردوستانہ حکومت کا خاتمہ، بھاری امریکی امداد، پاکستان کو اہمیت اور جدید ہتھیاروں کا حصول قومی سطح پر ہونے والے فوائد تھے جبکہ اپنے ذاتی اقتدار کے لئے بھی اس جنگ میں حصہ لینا سودمند تھا۔ دوست بن جانے کے بعد ان پر سے داخلی معاملات میں اصلاحات کا عالمی پریشر ہٹ جاتا۔ اس جنگ میں نہ کودنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ سوال صرف یہ تھا کہ ہانڈی کو کتنے درجہ حرارت پر پکایا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آئی ایس آئی کا افغان ونگ اس دوران ساٹھ افسروں اور تین سو این سی اوز پر مشتمل تھا۔ زیادہ تر پٹھان میجر اور کرنل تھے جو پشتو بولنا جانتے تھے اور اس علاقے میں سادہ کپڑوں میں پھرتے وقت پہچانے نہیں جاتے تھے۔ ان کا زیادہ تر کام مال پہنچانا اور پیسے تقسیم کرنے کا تھا۔ 1981 میں تیس ملین ڈالر سے یہ بجٹ 1983 میں دو سو ملین ڈالر ہو گیا تھا۔ سعودی عرب اسے دگنا کر دیتا تھا۔ (یہ سوویت یونین کی طرف سے کابل کے کمیونسٹوں کو دی جانے والی امداد کے آگے پھر بھی کم تھا جو سالانہ ایک ارب ڈالر تھی)۔
ریگن کو دی جانے والی رپورٹ سے چار سال قبل ہتھیاروں کی آمد لی اینفیلڈ کی 303 رائفلز سے شروع ہوئی تھی۔ اس کے بعد چین سے آنے والی کلاشنکوف، اور گولے۔ مشین گنیں اور آر پی جی۔ مصر نے سوویت یونین سے جو ہتھیار خریدے تھے، ان میں سے بھی فاضل مال خریدا گیا۔ پاکستان آرڈیننس فیکٹری کا بے نشان اسلحہ بھی شاپنگ لسٹ میں تھا۔ ایک بحری جہاز کے بعد اگلا، ایک ٹرک کے بعد دوسرا ٹرک۔ جی ٹی روڈ مصروف ہو گئی تھی۔
پاکستان اس میں اپنے کسی بھی طرح کے کردار کا مسلسل انکار کرتا رہا تھا۔ اسلام آباد کے سٹیشن چیف کہتے ہیں کہ ایک گفتگو میں کسی نے مجھے کہا کہ جب پاکستان کے صدر بار بار ہر ایک کو بتاتے ہیں کہ افغان جہاد میں پاکستان کا کوئی ہاتھ نہیں اور پاکستان مجاہدین کی صرف اخلاقی اور سفارتی حمایت کر رہا ہے تو وہ اپنا چہرہ سنجیدہ کیسے رکھ لیتے ہیں۔ میں نے جواب دیا کہ یہ ان کی مہارت ہے۔
صدر سے جب پرائیویٹ بات چیت ہوتی تھی تو اس پر کہ درجہ حرات کتنا رکھنا جائے کہ ہانڈی ابل نہ جائے اور اس آگ میں کتنی مزید لکڑی ڈالی جائے۔ 1984 کے آخر تک اس خوف میں کمی آ چکی تھی۔ یہ کھلا راز تھا کہ مدد کہاں سے آتی ہے۔ سوویت یونین نے پاکستان کے اندر زیادہ دھیان نہیں دیا تھا۔
ہانڈی کی آنچ اور تیز کی جا سکتی تھی۔ ہانڈی کی آںچ اور تیز کر دی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امریکہ میں اس کے ساتھ جو بڑی تبدیلی آئی، وہ یہ کہ مقصد روسی فوجی مارنے تک محدود نہیں رہا۔ دائرہ کار بڑھا دیا گیا۔ نیا خفیہ حکمنامہ 27 مارچ 1985 میں امریکی صدر ریگن کے دستخط سے جاری کیا گیا۔ ٹاپ سیکرٹ کلاسیفیکیشن والے اس ڈاکومنٹ سے پاکستان سمیت کوئی بھی اور اس سے بے خبر تھا لیکن حوصلہ افزا نتائج، بڑھتے بجٹ اور مقاصد کے ساتھ امریکہ کی طرف سے پالیسی میں تبدیلی بدل گئی تھی۔ پاکستان کا اس پر ہونے والا اثر براہِ راست تھا۔ امریکہ نے طے کر لیا تھا کہ صرف پاکستان پر انحصار نہیں رکھا جائے گا۔
نئے حکم نامے کے مطابق اب مقاصد یہ تھے۔
سوویت یونین کو باور کروانا کہ ان کی افغان سٹریٹیجی ناکام ہو گئی ہے
افغانستان میں سوویت بیس نہ بننے دینا
سوویت یونین کو تیسری دنیا کے اور اسلامی دنیا کے ممالک میں تنہا کرنا
سوویت بلاک کے ممالک میں سوویت یونین کو غاصب اور نااہل پاور کے طور پر ہیش کرنا
دنیا پر یہ واضح کرنا کہ کہیں پر سوویت یونین کو مداخلت کے نتائج بھگتنا پڑیں گے
جہاں تک ممکن ہو، اس جنگ کی خبر سوویت عوام تک پہنچانا
اس کے لئے یہ ہدایات دی گئیں۔
امریکہ صورتحال پر اپنی آزادانہ رائے کے لئے خود انفارمیشن حاصل کرے (اس سے پہلے یہ صرف پاکستانی خفیہ ایجنسی پر انحصار کرتا آیا تھا)
سوویت کمزوریاں ڈھونڈنے اور افغان مزاحمت کو جانچنے کے لئے خود اپنی انٹیلیجنس حاصل کی جائے
سپلائی میں ہونے والی کرپشن کے مسئلے کو روکنے کے لئے اقدامات کئے جائیں
پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات رکھے جائیں گے۔ افغانستان سپلائی کا کوئی اور روٹ نہیں، اس لئے یہ رکھنا ضروری ہے۔ پاکستان کے کسی بھی مطالبے اور ضرورت کا ریسپانس دیا جائے گا
افغانستان کے اندر مزاحمتی گروپس کی طرف سے چلنے والے سوشل سروسز کو ڈویلپ کیا جائے گا تا کہ ایک طرف پاکستان پر مہاجرین کا پریشر کم ہو اور دوسری طرف ان گروپس کو اپنے ملک میں فلاحی کام کرنے کی وجہ سے سویلین سپورٹ مل سکے
سوویت یونین پر افغانستان سے مکمل انخلا کیلئے عالمی پریشر بڑھایا جائے
یہ حکم نامہ ڈی کلاسیفائی ہو چکا ہے۔ اس کو دیکھنے کے لئے
https://fas.org/irp/offdocs/nsdd/nsdd-166.pdf
سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم کیسی نے جنوری 1984 کو صدر ریگن اور کابینہ کو سوویت افغان جنگ پر پراگرایس رپورٹ پیش کی۔ چار سال پہلے کراچی میں لی اینفیلڈ رائفلز کا پہلا کنٹینر پہنچا تھا۔ کیسی نے بتایا کہ ان برسوں میں سترہ ہزار سوویت فوجی ہلاک یا زخمی کئے جا چکے ہیں۔ مجاہدین اب افغانستان کا 62 فیصد علاقہ کنٹرول کرتے ہیں۔ سوویت یونین ساڑھے تین سو سے چار سو کے درمیان جہاز گنوا چکا ہے۔ مجاہدین 2750 ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں تباہ کر چکے ہیں۔ 8000 جیپیں اور دوسری گاڑیاں تباہ کی جا چکی ہیں۔ سوویت یونین اس جنگ پر بارہ ارب ڈالر خرچ کر چکا ہے۔ اس تباہی کو خریدنے کے لئے امریکی ٹیکس دہندگان کا خرچہ دو سو ملین ڈالر آیا ہے۔ جبکہ اتنا ہی خرچ سعودی عرب کی خفیہ ایجیسنی جی آئی ڈی کے پرنس ترکی نے کیا ہے۔
یہ چونکا دینے والے اعداد و شمار تھے۔ اس سے سستی اور موثر جنگ نہیں کی جا سکتی تھی۔ پاکستان نے اس میں اپنا کردار ادا کرنے کیلئے ایک شرط رکھی تھی۔ وہ یہ کہ امریکہ براہِ راست اس جنگ میں کچھ نہیں کرے گا۔ کس افغان گروپ کو کتنی سپورٹ کرنی ہے۔ یہ آپریشن کس طریقے سے کئے جانا ہے۔ کون ہتھیاروں کا حقدار ہو گا۔ امریکہ میں مداخلت نہیں کرے گا۔ اس کو پلان پاکستانی ایجنسی کرے گی۔ سی آئی اے کا کوئی بھی فرد افغانستان نہیں جائے گا۔ سی آئی اے نے بخوشی اس کو قبول کر لیا تھا۔ وہ خود بھی پیچھے رہنا چاہتے تھے۔ اگر براہِ راست امریکہ کے ملوث ہونے کے شواہد مل جاتے تو بات بڑھ سکتی تھی۔ سرد جنگ کے دو نیوکلئیر حریفوں کے درمیان یہ سنگین مسئلہ بن سکتا تھا۔ ان کو اس سے بھی دلچسپی نہیں تھی کہ کون کہاں پر جائز منافع کما رہا ہے اور کون دودھ پر سے ملائی زیادہ ہی اتار رہا ہے۔ وہ بینک آڈیٹر نہیں تھے۔ ان کو غرض نتائج سے تھی۔ یہ سرمایہ کاری ان کو بڑی کم قیمت میں وہ دے رہی تھی جو ان کو مطلوب تھا ۔۔۔ مردہ روسی فوجی۔ بہت سے مردہ روسی فوجی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس بنیاد پر وہ حاصل کر لیا جو کیس مانگتے آئے تھے۔ مزید بجٹ اور زیادہ اختیارات۔ اکتوبر 1984 میں اس بجٹ میں بڑا اضافہ کر دیا گیا۔ سعودی ایجنسی کی طرف سے بھی اتنا ہی اضافہ ہونے کے بعد اب اس جنگ کے مقاصد تبدیل ہو رہے تھے۔ امریکہ نے اس میں اپنا حصہ اس امید پر ڈالنا شروع کیا تھا کہ سوویت یونین کے لئے یہ جنگ مہنگی ہو جائے گی۔ اب مقاصد کا دائرہ وسیع ہو سکتا تھا۔
جنگ کے ابتدائی سالوں میں پاکستان کو خوف تھا کہ اگر کارروائی زیادہ شدید کی گئی تو ایسا نہ ہو کہ سوویت یونین براہِ راست پاکستان میں کوئی آپریشن کر دے۔ اس لئے صدر کی طرف سے بار بار یہ کہنے کو ملتا تھا کہ افغانستان کی ہانڈی ہلکی آنچ پر پکانی ہے۔ ایسا نہ ہو کہ کہیں ابل کر گر جائے۔ سوویت یونین کی صلاحیت بری طرح متاثر ہوئی تھی۔ اب اعتماد آ گیا تھا کہ سوویت فوج کے لئے یہ کرنا ممکن نہ ہو گا۔ حملوں میں شدت لائی جا سکتی تھی۔
اس سال کے آخر میں سی آئی اے کے چیف نے سب سے پہلی مرتبہ افغان مجاہدین کی ٹریننگ کیمپ کا دورہ جنرل اختر عبدالرحمٰن کے ہمراہ کیا۔ ٹریننگ کے لئے آئے رنگروٹوں سے تقریر کرتے ہوئے اب الفاظ یہ کہے جاتے تھے، “کابل کو جلنا ہو گا”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ضیا الحق اگرچہ دیندار تھے لیکن ایرانی حکومت یا سعودی عرب کے اخوان کے انداز کے ریڈیکل نہیں تھے، کالونیل دور میں تربیت یافتہ موقع شناس سیاستدان تھے۔ پاکستان اس وقت خود کو دنیا میں تنہا محسوس کر رہا تھا۔ نہ ہی سوویت بلاک میں تھا اور امریکہ سے تعلقات بھی سردمہری کا شکار تھے۔ انڈیا سے جنگ میں ہزیمت اٹھائے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا۔ جدید ہتھیار اس کو نہیں مل رہے تھے۔ نیوکلئیر پروگرام روکنے کے حوالے سے عالمی دباوؐ تھا۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر دنیا کی طرف سے پریشر تھا۔ دوسری طرف، پاک افغان تنازعہ پرانا تھا۔ ایک خطرہ یہ نظر آ رہا تھا کہ کابل کے کمیونسٹ افغان اور پاکستان پشتوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ علیحدگی پسند تحریک شروع ہو سکتی ہے۔ ایک اور مسئلہ انہیں افغانستان میں پاکستان مخالف اور جارحانہ عزائم رکھنے والی حکومت کے آ جانے سے تھا اور انڈیا کے یہاں پر اثر سے تھا۔ قومی سلامتی، پڑوسی ملک سے غیردوستانہ حکومت کا خاتمہ، بھاری امریکی امداد، پاکستان کو اہمیت اور جدید ہتھیاروں کا حصول قومی سطح پر ہونے والے فوائد تھے جبکہ اپنے ذاتی اقتدار کے لئے بھی اس جنگ میں حصہ لینا سودمند تھا۔ دوست بن جانے کے بعد ان پر سے داخلی معاملات میں اصلاحات کا عالمی پریشر ہٹ جاتا۔ اس جنگ میں نہ کودنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ سوال صرف یہ تھا کہ ہانڈی کو کتنے درجہ حرارت پر پکایا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آئی ایس آئی کا افغان ونگ اس دوران ساٹھ افسروں اور تین سو این سی اوز پر مشتمل تھا۔ زیادہ تر پٹھان میجر اور کرنل تھے جو پشتو بولنا جانتے تھے اور اس علاقے میں سادہ کپڑوں میں پھرتے وقت پہچانے نہیں جاتے تھے۔ ان کا زیادہ تر کام مال پہنچانا اور پیسے تقسیم کرنے کا تھا۔ 1981 میں تیس ملین ڈالر سے یہ بجٹ 1983 میں دو سو ملین ڈالر ہو گیا تھا۔ سعودی عرب اسے دگنا کر دیتا تھا۔ (یہ سوویت یونین کی طرف سے کابل کے کمیونسٹوں کو دی جانے والی امداد کے آگے پھر بھی کم تھا جو سالانہ ایک ارب ڈالر تھی)۔
ریگن کو دی جانے والی رپورٹ سے چار سال قبل ہتھیاروں کی آمد لی اینفیلڈ کی 303 رائفلز سے شروع ہوئی تھی۔ اس کے بعد چین سے آنے والی کلاشنکوف، اور گولے۔ مشین گنیں اور آر پی جی۔ مصر نے سوویت یونین سے جو ہتھیار خریدے تھے، ان میں سے بھی فاضل مال خریدا گیا۔ پاکستان آرڈیننس فیکٹری کا بے نشان اسلحہ بھی شاپنگ لسٹ میں تھا۔ ایک بحری جہاز کے بعد اگلا، ایک ٹرک کے بعد دوسرا ٹرک۔ جی ٹی روڈ مصروف ہو گئی تھی۔
پاکستان اس میں اپنے کسی بھی طرح کے کردار کا مسلسل انکار کرتا رہا تھا۔ اسلام آباد کے سٹیشن چیف کہتے ہیں کہ ایک گفتگو میں کسی نے مجھے کہا کہ جب پاکستان کے صدر بار بار ہر ایک کو بتاتے ہیں کہ افغان جہاد میں پاکستان کا کوئی ہاتھ نہیں اور پاکستان مجاہدین کی صرف اخلاقی اور سفارتی حمایت کر رہا ہے تو وہ اپنا چہرہ سنجیدہ کیسے رکھ لیتے ہیں۔ میں نے جواب دیا کہ یہ ان کی مہارت ہے۔
صدر سے جب پرائیویٹ بات چیت ہوتی تھی تو اس پر کہ درجہ حرات کتنا رکھنا جائے کہ ہانڈی ابل نہ جائے اور اس آگ میں کتنی مزید لکڑی ڈالی جائے۔ 1984 کے آخر تک اس خوف میں کمی آ چکی تھی۔ یہ کھلا راز تھا کہ مدد کہاں سے آتی ہے۔ سوویت یونین نے پاکستان کے اندر زیادہ دھیان نہیں دیا تھا۔
ہانڈی کی آنچ اور تیز کی جا سکتی تھی۔ ہانڈی کی آںچ اور تیز کر دی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امریکہ میں اس کے ساتھ جو بڑی تبدیلی آئی، وہ یہ کہ مقصد روسی فوجی مارنے تک محدود نہیں رہا۔ دائرہ کار بڑھا دیا گیا۔ نیا خفیہ حکمنامہ 27 مارچ 1985 میں امریکی صدر ریگن کے دستخط سے جاری کیا گیا۔ ٹاپ سیکرٹ کلاسیفیکیشن والے اس ڈاکومنٹ سے پاکستان سمیت کوئی بھی اور اس سے بے خبر تھا لیکن حوصلہ افزا نتائج، بڑھتے بجٹ اور مقاصد کے ساتھ امریکہ کی طرف سے پالیسی میں تبدیلی بدل گئی تھی۔ پاکستان کا اس پر ہونے والا اثر براہِ راست تھا۔ امریکہ نے طے کر لیا تھا کہ صرف پاکستان پر انحصار نہیں رکھا جائے گا۔
نئے حکم نامے کے مطابق اب مقاصد یہ تھے۔
سوویت یونین کو باور کروانا کہ ان کی افغان سٹریٹیجی ناکام ہو گئی ہے
افغانستان میں سوویت بیس نہ بننے دینا
سوویت یونین کو تیسری دنیا کے اور اسلامی دنیا کے ممالک میں تنہا کرنا
سوویت بلاک کے ممالک میں سوویت یونین کو غاصب اور نااہل پاور کے طور پر ہیش کرنا
دنیا پر یہ واضح کرنا کہ کہیں پر سوویت یونین کو مداخلت کے نتائج بھگتنا پڑیں گے
جہاں تک ممکن ہو، اس جنگ کی خبر سوویت عوام تک پہنچانا
اس کے لئے یہ ہدایات دی گئیں۔
امریکہ صورتحال پر اپنی آزادانہ رائے کے لئے خود انفارمیشن حاصل کرے (اس سے پہلے یہ صرف پاکستانی خفیہ ایجنسی پر انحصار کرتا آیا تھا)
سوویت کمزوریاں ڈھونڈنے اور افغان مزاحمت کو جانچنے کے لئے خود اپنی انٹیلیجنس حاصل کی جائے
سپلائی میں ہونے والی کرپشن کے مسئلے کو روکنے کے لئے اقدامات کئے جائیں
پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات رکھے جائیں گے۔ افغانستان سپلائی کا کوئی اور روٹ نہیں، اس لئے یہ رکھنا ضروری ہے۔ پاکستان کے کسی بھی مطالبے اور ضرورت کا ریسپانس دیا جائے گا
افغانستان کے اندر مزاحمتی گروپس کی طرف سے چلنے والے سوشل سروسز کو ڈویلپ کیا جائے گا تا کہ ایک طرف پاکستان پر مہاجرین کا پریشر کم ہو اور دوسری طرف ان گروپس کو اپنے ملک میں فلاحی کام کرنے کی وجہ سے سویلین سپورٹ مل سکے
سوویت یونین پر افغانستان سے مکمل انخلا کیلئے عالمی پریشر بڑھایا جائے
یہ حکم نامہ ڈی کلاسیفائی ہو چکا ہے۔ اس کو دیکھنے کے لئے
https://fas.org/irp/offdocs/nsdd/nsdd-166.pdf
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں