باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

بدھ، 27 نومبر، 2019

آدھے دماغ کی نیند


جانوروں میں نیند اور اس کے طریقے بہت متنوع ہیں اور ان میں سے کچھ ناقابلِ یقین لگتے ہیں۔ مثلاً آبی ممالیہ جیسا کہ ڈولفن اور وہیل ہیں، ان کی نیند میں خواب نہیں ہوتے اور عام طور پر ان کا دماغ پورا نہیں آدھا سوتا ہے۔ دماغ کے دو حصوں میں سے ایک خوبصورت نان ریم نیند میں ہوتا ہے۔ گہری، سریلی، طاقتور اور سست برین ویوز کی آغوش میں جبکہ دوسرا مکمل طور پر جاگا ہوتا ہے۔ تیز اور بے ہنگم دماغی ایکٹیویٹی سے گنگناتا ہوا۔ حالانکہ جس طرح انسان میں ہے، ویسے ہی ان کے دماغ کے دونوں نصف محض چند ملی میٹر دور ہیں اور موٹے ریشوں سے جڑے ہیں۔

یہ دونوں حصے جب جاگنے والی حالت میں ہوتے ہیں تو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر تال میل کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ لیکن جب ایک سائیڈ بند ہو جاتی ہے تو ان کو ملانے والی شاہراہ کا ٹریفک بند ہو جاتا ہے۔ دونوں حصے ایک دوسرے سے آزاد ہو جاتے ہیں۔ آدھا دماغ سو جاتا ہے۔ جب یہ حصہ اپنی نیند پوری کر لیتا ہے تو اٹھ بیٹھتا ہے اور جو پہلے جاگا ہوا تھا، اب وہ سو جاتا ہے۔ آدھے دماغ کے ساتھ ڈولفن اچھی طرح حرکت کر سکتی ہے اور کسی حد تک آواز سے رابطہ بھی کر لیتی ہے۔

اس طرح کی نیورل انجیرنگ فطرت میں نایاب ہے۔ پانی میں ممالیہ کو زندہ رہنے کیلئے اور نہ ڈوبنے کیلئے مسلسل حرکت کا پریشر ہے۔ کیا اس قدر پیچیدہ الگ شفٹوں میں نیند کے بجائے کوئی ایسا طریقہ نہیں نکالا جا سکتا تھا جس میں جاندار کو سونا ہی نہ پڑتا؟ لگتا ہے کہ نہیں۔ نیند اس قدر ضروری ہے کہ خواہ کسی کو پیدائش سے لے کر موت تک تیرنا ہی کیوں نہ ہو، فطرت کے پاس کوئی اور انتخاب نہیں تھا۔ پورے دماغ کے ساتھ سویا جائے یا آدھے آدھے دماغ کی شفٹیں لگا کر۔ دونوں ممکن ہیں، لیکن نیند پر سمجھوتہ نہیں۔ نیند ضروری ہے۔

آدھے دماغ کی نیند صرف آبی ممالیہ تک محدود نہیں۔ پرندے بھی یہ کرتے ہیں لیکن اس کا طریقہ کچھ اور ہے۔ بہت سے پرندے جب اکیلے سوتے ہیں تو آدھا دماغ اور ایک آنکھ کھلی ہوتی ہے تا کہ خطرات پر نظر رکھی جا سکے اور جب پرندے گروپ میں ہوتے ہیں تو یہ بہت ہی دلچسپ اور زبردست ہو جاتا ہے۔ ایک جھنڈ ایک سیدھ میں بیٹھ جائے گا۔ سوائے وہ پرندے جو اس کے آخری سرے پر ہیں، باقی سب پورے دماغ کی نیند سوئیں گے۔ دائیں اور بائیں سرے والے اتنے خوش قسمت نہیں ہوں گے۔ یہ آدھے دماغ کی نیند سوئیں گے۔ دائیں سرے والے کی دائیں آنکھ کھلی ہو گی اور بائیں سرے والے کی بائیں۔ اب یہ گروپ خطرے سے چوکس ہو گیا۔ سوتے دوران یہ دونوں چوکیدار اٹھیں گے، 180 کے زاویے پر گھوم کر الٹے ہو جائیں گے، ان کے دماغ کا دوسرا حصہ سو جائے گا اور جو آنکھ موندی ہے، وہ بدل جائے گی۔


کیا انسان بھی اس قسم کا کام کر سکتے ہیں؟ بہت کم حد تک۔ ایسی دو سٹڈیز حال میں پبلش ہوئی ہیں جس میں آدھے دماغ کی نیند کا ایک ہلکا سا ورژن پایا گیا ہے۔ یعنی دماغ کے دونوں حصوں کی برین ویوز نان ریم نیند میں ایک جیسی نہیں تھیں۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب کوئی کسی نئی جگہ پر پہلی بار سوئے، جیسا کہ رات ہوٹل میں گزاری ہے تو دماغ اس نئی کسی حد تک چوکس رہنے کے لئے ایسا کرتا ہے۔ جب اس جگہ پر کچھ دن گزر جائیں تو دونوں نصف کا پیٹرن یکساں ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی نئی جگہ پر پہلی رات سو کر اٹھنے کے بعد آپ ہمیشہ ویسا فریش محسوس نہیں کرتے۔ (یہ ڈولفن جیسا تو بالکل بھی نہیں لیکن تصور کریں کہ اگر ہو سکتا؟)۔

یہاں پر ایک اور چیز کا اضافہ۔ نان ریم نیند دماغ کی دونوں اطراف میں تقسیم ہو سکتی ہے لیکن جب ریم نیند کی باری آتی ہے تو پھر تمام انواع نیند کے اس حصے میں دماغ کے دونوں نصف الگ نہیں رہ سکتے۔ نیند کے خواب والے حصے میں دماغ کی دونوں اطراف کو ایک ہی وقت میں برابر کام کرنا ہوتا ہے۔ خواب پورے دماغ کی ایکٹویٹی ہے۔


نوٹ: امید ہے کہ اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ تصویر والا الو کسی کو آنکھ نہیں مار رہا، صرف اپنی نیند پوری کر رہا ہے۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں