باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

منگل، 28 جنوری، 2020

اروِن ۔ موبائل فون والے


نیٹ ورک کی ٹیکنالوجی میں ہونے والی جدتیں صارفین کے لئے اچھی خبر تھیں لیکن کسی نے اس انقلاب کو ایک پیکج کی شکل میں صارف کی جیب تک پہنچانا تھا۔ اور اس بارے میں ایک بڑا کردار ارون جیکبز کا رہا ہے۔ گوگل، مائیکروسوفٹ، انٹیل، ڈیل، ایمیزون، فیس بُک، براوزر یا ٹی سی پی بنانے والوں کے مشہور ناموں کی فہرست میں ایک اور بڑا اہم نام وہ ہے جو زبان زدِ عام نہیں لیکن ڈیجیٹل انقلاب میں اس کا بھی اتنا حصہ ہے۔ ان کی بنائی ہوئی کمپنی کوال کوم تھی۔

انٹیل اور مائیکروسوفٹ نے ملکر جو پرسنل کمپیوٹر کے لئے کیا، وہ کوال کوم نے موبائل فون کے لئے۔ اس کی مائیکروچپ کی ایجاد، ڈیزائنر اور بنانے والی کمپنی اور پھر اس کا سافٹ وئیر بنانے والی۔ اس کے سان ڈیگو کے میوزیم میں اس کا پہلا موبائل فون رکھا ہے۔ ایک سوٹ کیس جس کے ساتھ بات کرنے والا آلہ لگا ہے جو 1988 میں بنایا گیا۔ ترقی کا سفر دکھانے والا یہ ایک نظارہ ہے۔ چونکہ اب کوال کوم اپنی پراڈکٹس براہِ راست صارفین کو نہیں بیچتی بلکہ فون بنانے والوں اور موبائل کمپنیوں کو بیچتی ہے، اس لئے بہت سے لوگ ارون جیکبز اور ان کے موبائل کے انقلاب کو زیادہ نہیں جانتے۔

ہر ایک کے ہاتھ میں فون ہو سکتا ہے۔ کوئی بھی 1980 کی دہائی میں ایسا نہیں سوچ سکتا تھا۔ جیکبز ایم آئی ٹی میں پروفیسر تھے۔ ڈیجیٹل مواصلات پر ایک کتاب کے مصنف تھے۔ 1966 میں اسے چھوڑ کر اپنے ساتھیوں کے ساتھ ٹیلی کام کنسلٹنگ کی کمپنی بنائی۔

موبائل فون کا بزنس 1980 کی دہائی میں ابھرنا شروع ہوا۔ یہ 1G فون تھے یعنی پہلی جنریشن کے۔ یہ ایف ایم ریڈیو پر پیغام بھیج سکتے تھے اور وصول کر سکتے تھے۔ ہر ملک کا اپنا سٹینڈرڈ تھا۔ اس ٹیکنالوجی میں یورپ باقی دنیا سے آگے تھے۔ اس سے اگلی جنریشن 2G آئی۔ یہ یورپی سٹینڈرڈ کی بنیاد پر تھی جس کو جی ایس ایم کہا جاتا تھا اور اس کا پروٹوکول TDMA تھا۔ تمام یورپی حکومتوں نے اس کو معیار بنا لیا۔ اس کی وجہ سے مغربی یورپ کے ایک ملک سے دوسرے ملک ایک ہی ڈیوائس استعمال کی جا سکتی تھی اور رومنگ کالز کی جا سکتی تھیں۔ یورپ کی کمپنیاں ایرکسن اور نوکیا اس میں پیش پیش تھیں اور باقی دنیا کے ممالک کو قائل کر رہی تھیں کہ اس سٹینڈرڈ پر آ جائیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جیکبز اور ان کے ساتھیوں نے 1985 میں ایک نئی کمپنی قائم کی جو کوال کوم تھی۔ ان کا ایک ابتدائی کسٹمر ہیوز ائیرکرافٹ تھا جو ان کے پاس ایک پراجیکٹ لے کر آیا۔ انہوں نے ایک موبائل سیٹلائیٹ سسٹم بنانا تھا اور کوال کوم کو کہا کہ وہ اس میں کوئی ٹیکنیکل بہتری بتائیں۔

جیکبز نے اپنی پچھلی تحقیق کی بنیاد پر تجویز کیا کہ ایک اور پروٹوکول استعمال کیا جائے جو CDMA تھا۔ یہ پروٹوکول وائرلیس کیپیسیٹی کو بہت زیادہ بڑھا سکتا تھا اور موبائل ٹیلی فونی زیادہ لوگوں تک پہنچا سکتا تھا۔ ایک سیٹلائیٹ سے زیادہ لوگ فائدہ اٹھا سکتے تھے۔ مسئلہ یہ تھا کہ یورپ ایک مختلف پروٹوکول یعنی TDMA کو لازم کر چکا تھا۔ ابھی موبائل ٹیلی فونی کا ابتدائی دور تھا اور ہر سرمایہ کار کا جیکبز سے سوال تھا، “جب GSM اور TDMA کافی ہیں تو پھر اس نئی ٹیکنالوجی کی کیا ضرورت ہے؟”۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان دونوں میں فرق کیا تھا؟ یہ دونوں ایک ریڈیو ویو پر کئی مکالمے بیک وقت بھیج سکتی تھیں لیکن سی ڈے ایم اے ایک اور چیز کا فائدہ اٹھا سکتی تھی جو وہ قدرتی وقفہ ہے جو بات کرنے کے درمیان دیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے یہ زیادہ بہتر طور پر فائدہ اٹھا سکتی تھی اور زیادہ لوڈ اٹھا سکتی تھی۔ اس کو سپریڈ سپکٹرم کہا جاتا ہے۔ ہر کال کو ایک کوڈ ملا جو فریکوئنسی کے سپیکٹرم میں دور تک پھیلا ہوا ہے اور جہاں یہ موصول ہوا، اس کو دوبارہ واپس جوڑ لیا گیا۔ اس سب میں جو پیچیدگی تھی، وہ سافٹ وئیر کی تھی۔ یہ سافٹ وئیر اور کچھ تکنیکس کے استعمال سے سپریڈ سپیکٹرم دوسری سیل سائٹ سے آنے والی مداخلت کم کر دیتا تھا۔ اس کے مقابلے میں ٹی ڈی ایم اے میں ہر فون کال اپنی جگہ مخصوص کر لیتی تھی۔ اس کی وجہ سے اگر ایک وقت میں زیادہ لوگ کال کر رہے ہوں تو موبائل آپریٹر کے پاس جلد جگہ ختم ہو جاتی تھی۔

ہر نیٹ ورک اوورلوڈ ہو سکتا ہے لیکن یہ مسئلہ TDMA میں زیادہ تھا۔ اس میں کوئی شبہہ نہیں تھا کہ CDMA سپیکٹرم کو بہتر طور پر استعمال کر سکتا ہے۔ جیکبز کی یہ وہ دریافت تھی جس نے آگے چل کر بہت اہم ہو جانا تھا۔ فون پر انٹرنیٹ؟ ابھی اس کا تصور نہیں تھا۔ بات کے دوران میں فون کال ڈراپ نہ ہو جائے۔ یہی اس وقت کے موبائل صارف کا خواب تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہیوز ائیرکرافٹ نے پراجیکٹ منسوخ کر دیا۔ اس کے پیٹنٹ کوال کوم کے پاس رہے۔ جیکبز نے ہتھیار نہیں ڈالے۔ 1993 کی گرمیوں میں CDMA کا سٹینڈرڈ جاری ہوا۔ کوئی بھی کمپنی اس سٹینڈرڈ پر فون بنانے کو تیار نہیں ہوئی۔ کوال کوم نے خود ہی چپ بنائے، سافٹ وئیر بنایا، اس کے مطابق موبائل فون بنائے، اس کا انفراسٹرکچر ڈیزائن کیا۔ ستمبر 1995 میں جیکبز نے ہانگ کانگ کی کمپنی ہچنسن ٹیلی کام کو یہ پروٹوکول اپنانے پر تیار کر لیا۔ یہ ایسا کرنے والا دنیا کا پہلا کمرشل آپریٹر تھا۔ 1996 میں جنوبی کوریا کے ایک آپریٹر نے بھی اس کو اپنا لیا۔ آواز کی کوالٹی بہتر تھی، کال ڈراپ کم ہوتی تھی اور انٹرنیٹ پر TDMA سے زیادہ رفتار سے ڈیٹا بھی بھیجا جا سکتا تھا۔

اور یوں، پروٹوکول کی یہ جنگ شروع ہوئی۔ اور یہ بڑی ہی گھمسان کی جنگ تھی۔ 2G فون آواز اور ٹیکسٹ کے لئے ہی استعمال ہوتے تھے لیکن انٹرنیٹ کی مقبولیت بڑھ رہی تھی۔ اس نے یہ باور کروایا کہ زیادہ ایفی شنٹ وائرلیس کی رسائی کی ضرورت ہے۔ یہ کیسے ہو گا؟ یہ تیسری جنریشن یعنی 3G تھا۔

اور مختصر کہانی یہ کہ اس جنگ میں جیکبز جیت گئے۔ GSM اور TDMA ہار گیا۔ انٹرنیٹ پر ٹریفک بھیجنے کو بہت زیادہ تھا اور جیکبز کا پروٹوکول ہی اس کے لئے ٹھیک کام کرتا تھا۔ آپ کے فون کا 3G ایسے ہی چلتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک تاثر ہے کہ جو چیز بھی بہتر ہو گی، وہ آ کر رہے گی لیکن ایسا ضروری نہیں۔ اگر کمتر چیز بھی ایک بار سٹینڈرڈائز ہو جائے تو اس کو بدلنا آسان نہیں ہوتا۔ (آپ کے کمپیوٹر کا کی بورڈ اس کی مثال ہے)۔ اگر جیکبز اس قدر ضدی نہ ہوتے یا امریکہ بھی یورپ کی طرح ایک سٹینڈرڈ پر سب کو پابند کر دیتا (امریکہ نے یہ فیصلہ مارکیٹ کے سپرد کر دیا تھا اور دونوں چلتے رہے) تو سی ڈی ایم اے موجود نہ ہوتا۔ اگلی جنریشن والا تھری جی اس کی بنیاد پر نہ آ سکتا۔ اس وقت دنیا میں انٹرنیٹ کمپیوٹر سے کئی گنا زیادہ موبائل ڈیوائسز کے ذریعے استعمال کیا جاتا ہے۔ تیز رفتار اور سستے انٹرنیٹ کی رسائی نے سمارٹ فون کو تاریخ کا سب سے تیزی سے پھیلتا ٹیکنالوجی پلیٹ فارم بنایا۔ جیکبز 1977 میں انٹرنیٹ بنانے والی ابتدائی ٹیم میں سے ایک کے ساتھ تھے اور موبائل فون کے لئے پروٹوکول ڈیزائن کرتے ہوئے ان کا یہی خیال تھا کہ نہ صرف آواز بلکہ انٹرنیٹ بھی اس پر چل سکے گا۔

جیکبز نے یہ ضد اس وقت کی جب یورپ دوسری سمت میں جا رہا تھا۔ اس کا ایک اور نتجہ یہ نکلا کہ تھری جی اور فور جی ٹیکنالوجی میں موبائل ٹیکنالوجی کی برتری یورپ سے امریکہ کی طرف چلی گئی۔ کوال کوم خود فون اور ٹرانسمشن پلیٹ فارم کے بزنس سے نکل گئی اور اپنا فوکس چپ اور سافٹ وئیر بنانے پر کر لیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج دنیا میں ہر جگہ آواز کے ساتھ انٹرنیٹ کی رسائی ہے جو تعلیم، معیشت، معاشرت اور سیاست پر اثرانداز ہو رہی ہے۔ جیکبز کہتے ہیں کہ “ہم اس لئے جیتے کہ باقی سب اس وقت کا سوچ رہے تھے۔ میری نظر کل پر تھی اور تیزرفتار تبدیلی پر تھی۔ ٹیکنالوجی نے تو بہتر ہونا ہی تھا۔ فٹ بال میں کہتے ہیں کہ آپ نے اس جگہ پر نہیں جانا ہوتا جہاں بال اس وقت ہو بلکہ اس جگہ پر جہاں آپ بال کے آنے کی توقع ہو۔ اسی طرح، اکیسویں صدی کے آغاز میں جب ہم چین اور انڈیا میں جا رہے تھے تو میں نے پیش گوئی کی تھی کہ ایک وقت موبائل فون سو ڈالر میں دستیاب ہو گا۔ اب یہ اس سے ایک تہائی قیمت پر بھی دستیاب ہے”۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جیکبز کی فیملی کی ایجادات صرف یہاں تک نہیں رکیں۔ اس کے بعد ان کے بیٹے پال جیکبز اس بزنس کے چیف ایگزیکٹو بنے۔ ایک روز 1997 میں ایک میٹنگ میں ایک خیال آیا۔ انہوں نے ایک فون لیا۔ اس کو ٹیپ کے ساتھ ایک پام پائلٹ کے ساتھ چپکایا۔ اپنی ٹیم کو کہا کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں ہم پہنچنا چاہتے ہیں۔ پام پائلٹ میں ایڈریس بک، کیلنڈر، نوٹ بک اور براوزر وغیرہ تھے۔ فون میں تھری جی نیٹ ورک تک رسائی۔ اگر ایڈریس بک میں ایک فون نمبر کا انتخاب کریں تو یہ فون ڈائل ہو جائے!! اور اسی ڈیوائس کے ساتھ انٹرنیٹ بھی دیکھا جا سکے۔

ایپل نے یہ آئیڈیا مسترد کر دیا۔ جیکبز پام کے پاس گئے اور دونوں نے ملکر 1998 میں پہلا سمارٹ فون بنایا جو کوال کوم پی ڈی کیو تھا۔ کوال کوم نے پہلا ایپلی کیشن سٹور 2001  میں بنایا جو بریو کہلایا۔

پال جیکبز کو وہ پہلا وقت یاد ہے جب انہوں نے اندازہ کر لیا تھا کہ ایک انقلاب آنے کو ہے۔ دسمبر 1998 میں ایک چھٹی کے وقت انہوں نے ساحلِ سمندر پر اپنے پہلے تجرباتی سمارٹ فون پر براوزر میں آلٹاوسٹا سرچ انجن میں مچھلی کھانے کے لئے ریسٹورنٹ تلاش کیا۔ اس نے قریب ہی ایک ریسٹورنٹ کا پتا بتا دیا۔ مچھلی بھی مزیدار تھی۔ جیکبز کہتے ہیں، “کمال ہی ہو گیا تھا۔ رابطے کی دنیا کھل گئے تھی۔ مجھے ایسے چیز کی تلاش تھی جس کا ٹیکنالوجی سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔ آپ ساحلِ سمندر پر بیٹھے بیٹھے مچھلی کا ریسٹورنٹ تلاش کر سکتے تھے!!  آج یہ عام سی بات لگے لیکن میرے لئے یہ ایک چونکا دینے والا تجربہ تھا۔ مجھے ایک انقلاب نظر آ رہا تھا”۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کوال کوم کی یہ ڈیوائس خوبصورت نہیں تھی۔ انٹرنیٹ کی رفتار سست تھی۔ 2007 میں آئی فون کی آمد اور تیزرفتار انٹرنیٹ آمد کے پیچھے کوال کوم کا بڑا ہاتھ ہے۔

کوال کوم واپس سمارٹ فون کے اندر کی ٹیکنالوجی پر لی گئی۔ ہارڈ وئیر اور سافٹ وئیر پر کام کرنے لگی۔ جیکبز کا خیال ہے کہ اس سے پہلے کہ ہم فزکس کی حد کے قریب پہنچنے لگیں، اس میں ابھی ایک ہزار گنا بہتری کی گنجائش ہے۔

اگر آپ اپنے موبائل پر یوٹیوب کی ویڈیو دیکھ رہے ہیں اور وہ درمیان میں رک نہیں رہی تو اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ کوال کوم اور اے ٹی اینڈ ٹی نے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری وائرلیس نیٹ ورک اور فون کو ایفی شنٹ بنانے میں کی ہے۔ 2G میں آواز اور ڈیٹا تھا اور سادہ پیغامات تھے۔ 3G میں انٹرنیٹ اس رفتار سے جو ڈائل اپ موڈم کی تھی۔ 4G میں اتنی رفتار جس پر ویڈیو چل سکے۔ اب اگلا پڑاوٗ 5G ہے۔ جیکبز کا کہنا ہے کہ ابھی بہت کچھ باقی ہے۔

فارن پالیسی میگیزین میں آرٹیکل سے اقتباس۔
"اگر جدت کی رفتار دیکھنا ہو تو ایک ذاتی ڈرون کو دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ سمارٹ فون کی جنگوں کا نتیجہ ہے۔ اس کے سنسر، جی پی ایس، کیمرہ، پراسسر، وائرلیس کنکشن، بیٹری ۔۔۔ یہ سب اس پیمانے پر اور اتنا سستا بننا اس وجہ سے ممکن ہوا۔ وہ چیزیں جو اب چند ڈالروں میں مل جاتی ہیں، آج سے دس سال پہلے ملٹری ٹیکنالوجی سمجھی جاتی تھیں۔ جن کے راز خفیہ رکھے جاتے تھے، اب ایک الیکٹرانکس کی دکان پر عام دستیاب ہیں۔ ٹیکنالوجی میں یہ رفتار کبھی پہلے نہیں دیکھی گئی اور اس کی وجہ وہ سپرکمپیوٹر ہے جو آپ کی جیب میں ہے"۔

]


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں