باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

پیر، 20 جنوری، 2020

سمارٹ کچراکنڈی، عقلمند گٹر ۔ اشیاء کا انٹرنیٹ

ٹیکنالوجی کی رفتار کا ایک بڑا اور غیرمتوقع نتیجہ یہ نکلا ہے کہ بے وقوف سمجھنے جانی والی اشیاء اب اتنی بے وقوف نہیں رہیں۔ صرف واشنگ مشین یا ٹی وی جیسی اشیاء نہیں، کچرا کنڈی بھی۔ سمارٹ کچرا کنڈی کی مارکیٹ میں لیڈر بگ بیلی گاربیج کین ہے۔ یہ ایک آلے کے ساتھ آتا ہے جو یہ بتاتا ہے کہ وہ کتنا بھرا جا چکا اور اسے خالی کئے جانے کی ضرورت ہے یا نہیں۔ کوڑا اٹھانے والے ٹرک اس کے مطابق اپنے ٹھیک راستے کا انتخاب کر سکتے ہیں جس میں وقت اور ایندھن کم سے کم استعمال ہو۔ بگ بیلی کا ریسپٹکیکل سولر پینل سے چلتا ہے اور اس کی موٹر کچرے کو کمپریس کرتی ہے۔ اس سے گنجائش میں ڈرامائی اضافہ ہو جاتا ہے۔ کم والیوم کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ سڑکیں صاف رہ سکتی ہیں، ماحولیاتی آلودگی میں کمی ہوتی ہے۔ یہ ریسیپٹیکل کلاوٴڈ کمپیوٹنگ کے ساتھ رابطے میں رہتا ہے اور اشارہ کر دیتا ہے کہ کب یہ اپنا پیٹ بھرنے لگا ہے اور اس کو توجہ کی ضرورت ہے۔

ڈیٹرائیٹ میں بنی ہوئی یہ کچرا کنڈی اب امریکہ میں کچھ شہروں اور نجی اداروں کے علاوہ برطانیہ، نیدرلینڈز، جرمنی، سویڈن، آئس لینڈ، چیک ری پبلک، سکاٹ لینڈ اور سوئٹزرلینڈ کے شہروں میں بھی پہنچ چکی ہیں۔

شہر میں لگے آگ بجھانے کے لئے لگی فائر ہائیڈرنٹ اور سیوریج کے گٹر جیسی نادان چیزیں بھی اب دانا ہو رہی ہیں۔ یہ اپنی صورتحال براڈکاسٹ کرتی ہیں اور مقامی انتظامیہ دیکھ سکتی ہے کہ کسے اور کہاں توجہ کی ضرورت ہے۔

ترقی کی یہ جہت ٹیکنالوجی کی جس ڈائمنشن سے ممکن ہو رہی ہے، وہ سنسر ہے۔ سنسر کوئی بھی ایسا آلہ ہے جو ماحول میں سے کسی اِن پُٹ کو محسوس کر کے کوئی ردِعمل دکھا سکے۔ روشنی، درجہ حرارت، حرکت، نمی، پریشر اور دوسرے بہت سے ماحولیاتی فینومینا۔ ان کی آوٗٹ پٹ ایسا سگنل ہوتا ہے جس کو اس سنسر پر لگے ایسے ڈسپلے میں تبدیل کیا جا سکے جسے انسان پڑھ سکیں یا اس کو نیٹورک پر کہیں اور بھیجا جا سکے جہاں اس کو یا پڑھا جا سکے یا اس کو پراسس کیا جا سکے۔

بصارت، سماعت، چھونے کی حس ڈیجیٹل شکل میں ڈھل چکی ہے۔ سونگھنے کی حس پر کام ہو رہا ہے۔ درجہ حرارت کا سینسر ایک مائع کے پھلنے اور سکڑنے کی پیمائش کر لیتا ہے۔ حرکت کے سینسر توانائی کا بہاوٗ پھینکتے ہیں جو روشنی، مائیکروویو، الٹرا سونک ویو ہو سکتی ہے۔ جب اس بہاوٗ میں خلل آئے ۔۔۔ کسی جانور، شخص یا گاڑی کے گزرنے کے سبب ۔۔۔ تو اس پر ڈیجیٹل سگنل بھیج دیتے ہیں۔ پولیس گاڑیوں کی رفتار ایک بیم پھینک کر معلوم کر لیتی ہے۔ موبائل فون پر سنسر روشنی کو محسوس کر کے سکرین کی روشنی ایڈجسٹ کر دیتا ہے۔ پولیس یہ معلوم کر سکتی ہے کہ عمارت میں گولی کہاں سے چلی۔ اور اگر آپ نے فِٹ بِٹ پہنی ہے تو سنسرز کی ایک کمبی نیشن یہ معلوم کر رہی ہے کہ آپ کتنے قدم لے رہی ہیں، کتنا فاصلہ طے کر رہے ہیں، کتنی کیلوریاں خرچ کر رہے ہیں، بازو کتنی تیز ہلا رہے ہیں۔ آپکے فون کا کیمرہ آپ کے گرد منظر کی تصویر یا ویڈیو لینے کو اور اسے دنیا میں کہیں بھی بھیجنے کو تیار بیٹھا ہے۔

یہ ہماری حسیات کی ایک وسیع ایکسٹینشن ہے جو میٹیرئل سائنس اور نینوٹیکنالوجی کے بریک تھرو نے ممکن بنائی۔ چھوٹے، سستے، سمارٹ اور ہر موسم میں قابلِ استعمال سنسر بنانا اور ان کے ڈیٹا کو کہیں اور بھیج دینا اس طرح ممکن ہوا۔ یہ “اشیاء کے انٹرنیٹ” کا بنیادی ستون ہے۔ بیسویں صدی کی ٹیکنالوجی میں ہونے والی جدتوں سے اکیسویں صدی میں صنعتی انٹرنیٹ ممکن ہوا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سنسرز سے آنے والا ڈیٹا اس سطح پر انسائٹ دے رہا ہے جو پہلے کبھی ممکن نہیں تھا۔ یہ بڑے مرکزی ڈیٹا بینک تک آتا ہے۔ طاقتور ہوتا ہوا سافٹ وئیر اس میں پیٹرن ڈھونڈتا ہے۔ کہیں کوئی مسئلہ ہو جانے سے پہلے اس کو تلاش کر لیتا ہے۔ یہ اطلاع بھجوا دی جاتی ہے۔ "کچرا اٹھانے کا وقت آ گیا" یا "فلاں پرزہ جلد خراب ہو جائے گا، تبدیل کر لیں" یا "اس جگہ پر پانی زیادہ کھڑا ہے" کی صورت میں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس سے کسی چیز کی دیکھ بھال کو ٹھیک طرح سے کرنا ممکن ہو رہا ہے۔ پرانی اپروچ کنڈیشن بیسڈ مینٹیننس کہلاتی تھی۔ "پانچ ہزار کلومیٹر ہو گئے ہیں، تیل بدل لو"۔ (بغیر اس چیز کا خیال کئے کہ گاڑی کیسے اور کہاں چلائی گئی تھی)۔ نئی اپروچ پریڈیکٹو مینٹیننس کہلاتی ہے۔ ایک چیز اپنی صحت خود بتا رہی ہے اور بتا رہی ہے کہ اب اس کو توجہ کی ضرورت ہے۔ روایتی طریقہ فزکس کی ماڈلنگ پر ہے جبکہ پریڈیکٹو کمزور سگنلز کے تجزیے کے بنیاد پر۔ یہ سگنل اتنے کمزور ہوتے ہیں کہ انسانی ذہن ان کو تلاش نہیں کر سکتا۔ مشین کے لئے یہ آسان ہے۔

ماہر کاریگر کمزور سگنلز اپنے تجربے کی بنیاد پر جان لیتے ہیں۔ "وہ جو ہلکی سے آواز کہیں سے آ رہی ہے، خرابی کی علامت ہے"۔ لیکن مشیینیں اس سے کہیں زیادہ باریکی سے بھوسے کے ڈھیر سے سوئی تلاش کر سکتی ہیں۔ ان کی مدد لے کر ایک کاریگر اپنے کام کے پہلے روز کسی تیس سالہ کاریگر کا تجربہ راتوں رات لے سکتا ہے۔ سنسر اس کو خود ہی بتا دیں گے۔

اس نالج کی اس قدر تیزی سے جنریشن اور اس کا اطلاق نہ صرف انسانوں سے، بلکہ مویشیوں سے بھی بہترین کارکردگی حاصل کر سکتا ہے۔

(جاری ہے)


سمارٹ کچرا کنڈی پر
https://bigbelly.com

سمارٹ فائر ہائیڈرینٹ
https://www.thinxtra.com/portfolio-item/smart-fire-hydrants/

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں