باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

اتوار، 5 جنوری، 2020

جرمنی ۔ تقسیم (قسط دوئم)

 
جنگ عظیم دوئم کے فاتحین اتحادیوں نے جرمنی کو چار حصوں میں تقسیم کر دیا۔ جنوب میں امریکی، جنوب مغرب میں فرنچ، شمال مغرب میں برطانوی اور مشرق میں سوویت زون بن گئے۔ اس کا دارالحکومت برلن سوویت یونین والے زون کے بیچ میں تھا لیکن اس کو بھی اسی طرح چار حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ یہ سوویت حصے کے درمیان ایک غیرسوویت جزیرہ تھا۔ 1948 میں سوویت نے امریکی، برطانوی اور فرنچ کی برلن تک زمینی رسائی پر پابندی لگا دی تا کہ ان کو برلن چھوڑنا پڑے۔ اتحادیوں نے اس کا جواب برلن ائیرلفٹ سے دیا۔ اور برلن کو فضائی راستے سے سپلائی جاری رکھی۔ سوویت نے یہ بندش ایک سال تک رکھی۔ کارگر نہ ہونے کے سبب اس پر پابندی 1949 میں ہٹا دی۔



اسی برس امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے اپنے علاقے یکجا کر کے ایک یونٹ بنا دیا جو فیڈرل ریپبلک آف جرمنی کہلایا (اس کو مغربی جرمنی بھی کہتے تھے)۔ سوویت یونین کا علاقہ الگ یونٹ بن گیا جس کو جرمن ڈیموکریٹک ریپبلک کا نام دیا گیا (اس کو مشرقی جرمنی بھی کہتے تھے)۔آج مشرقی جرمنی کو ایک کمیونسٹ ڈکٹیٹرشپ کے ناکام تجربے کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جو خود منہدم ہو گیا اور مغربی جرمنی میں جذب ہو گیا۔ لیکن کئی بار یہ بھلا دیا جاتا ہے کہ اس کے پیچھے نہ صرف سوویت فورس تھی بلکہ جرمن کمیونسٹ آئیڈلزم بھی تھا جس کی وجہ سے مشرقی جرمنی بنا اور کئی جرمن انٹیکچوئل ایسے تھے جنہوں نے مغربی جرمنی سے مشرقی جرمنی جانے کا انتخاب خود کیا۔

مشرقی جرمنی میں آزادی اور معیارِ زندگی مغربی جرمنی کے مقابلے میں بڑی تیزی سے پیچھے رہتا گیا۔ سوویت یونین نے مشرقی جرمنی پر جنگ سے ہونے والے نقصان کا ہرجانہ وصول کیا۔ یہ سالانہ دی جانے والی ایک رقم تھی جو سوویت یونین کئی ممالک کی طرح مشرقی جرمنی سے بھی وصول کرتا رہا۔ فیکٹریاں اکھاڑ لی گئیں۔ مشرقی جرمنی کی زراعت کی اشتراکی فارمز میں تنظیمِ نو ہوئی۔ اشتراکی اقدار کی وجہ سے مشرقی جرمنی میں محنت اور مقابلے کی قدر نہیں پنپ سکی جو مغربی حصے کے پاس آئی۔

اس کا نتیجہ جلد ہی سامنے آنے لگا۔ مشرقی جرمنی سے لوگوں نے مغربی جرمنی جانا شروع کر دیا۔ 1952 میں مشرقی جرمنی نے اپنی سرحد سیل کر دی۔ لیکن مشرقی جرمنی سے نکلنے کا ایک راستہ کھلا تھا جو برلن تھا۔ مشرقی برلن سے مغربی برلن چلے جایا جائے اور پھر وہاں سے مغربی جرمنی کی پرواز لے لی جائے۔ جنگ سے پہلے کا ٹرانسپورٹ سسٹم مغربی اور مشرقی برلن کو ملاتا تھا۔ ان کے درمیان سفر ٹرین کا ایک ٹکٹ تھا۔ دو ٹرین لائنز، ایس باہن اور یو باہن، ان کے درمیان چلا کرتی تھیں۔

مشرقی جرمنی میں 1953 میں بے چینی ہڑتال میں تبدیل ہوئی اور پھر بغاوت بنی۔ اس کو سوویت فوج نے کچل دیا۔ برلن کا پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم لوگوں کا مغرب کی طرف فرار کا راستہ بننے لگا۔ بالآخر، 13 اگست 1961 کی رات کو مشرقی جرمنی کی حکومت نے اچانک یو باہن سٹیشن بند کر دئے۔ مشرقی اور مغربی برلن کے درمیان دیوار کھڑی کر دی۔ اس کی نگرانی گارڈ کرتے جو اس کو پار کرنے کی کوشش کرنے والوں کو گولی مار دیا کرتے۔ مشرقی جرمن حکومت نے اس دیوار کی وجہ یہ بتائی کہ یہ مشرقی جرمنی کو مغرب سے آنے والوں کو روکنے کے لئے تعمیر کی گئی ہے تا کہ ملک کو مجرموں اور مغربی جرمن پناہ گزینوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ مشرقی جرمنی کے درمیان میں بنائی جانے والے اس دیوار کے بارے میں مغربی جرمنی کچھ نہیں کر سکتا تھا۔

اس کے بعد سے مشرقی جرمنی ایک الگ ریاست ہو گئی جس میں رہنے والوں کے لئے مغرب کی طرف آنا ممکن نہیں رہا تھا۔ یہ کرنا اپنی جان کو خطرے میں ڈالنا تھا۔ (ایک ہزار سے زیادہ جرمن اس دیوار کو پار کرنے کی کوشش میں مارے گئے)۔ جرمنی کے واپس مل جانے کی امید نہیں تھی۔ سوویت یونین اور مشرقی یورپ کا بلاک ایک طرف، امریکہ اور مغربی یورپ دوسری طرف۔

دوسری جنگِ عظیم کے بعد فاتح مغربی اتحادیوں نے جرمنی کے لئے ویسی ہی پالیسی پر غور کیا تھا جو سوویت نے اپنائی۔ یعنی اس کو کبھی بھی صنعتی ملک نہ بننے دیا جائے اور اس کو زرعی ملک بنا دیا جائے، اس سے ہرجانہ وصول کیا جائے۔ یہ مورگنتھو پلان تھا۔ اتحادیوں کا نکتہ نظر یہ تھا کہ ہٹلر کا جرمنی دوسری جنگِ عظیم کا ذمہ دار تھا (اس پر عام اتفاق تھا) اور قیصر ولہیلم دوئم کا جرمنی پہلی جنگِ عظیم کا (یہ متنازعہ تاریخی سوال ہے) اور اگر جرمنی کو ترقی کرنے دی گئی تو یہ دنیا میں اگلی جنگِ عظیم برپا کر دے گا۔

اتحادیوں کا یہ نکتہ نظر سوویت سرگرمیوں کی وجہ سے تبدیل ہوا جس سے یہ احساس ہوا کہ ان کو اصل خطرہ جرمنی سے نہیں بلکہ سوویت یونین سے ہے۔ مشرقی یورپ کا کمیونسٹ ٹیک اوور، ان ممالک میں سوویت فوج کی موجودگی، سوویت یونین کی ایٹمی صلاحیت اور پھر ہائیڈروجن بم بنا لینا، 1949 میں برلن کو کاٹنے کی کوشش، مغربی جمہوریتوں میں بھی کمیونسٹ پارٹیوں کی مقبولیت (خاص طور پر اٹلی میں) وہ نشان تھے، جس سے یہ اندازہ ہو رہا تھا کہ سرد جنگ اگر گرم ہوئی تو میدانِ جنگ مغربی یورپ ہو گا۔ یورپ کے وسط میں جرمنی مغربی یورپ کی آزادی اور دفاع کے لئے اہم بن گیا۔ اس کی مدد کرنے کی دوسری وجہ یہ تھی کہ کمزور اور فرسٹریشن کا شکار جرمنی سیاسی انتہاپسندی کی طرف نہ چلا جائے (جیسا کہ پہلی جنگِ عظیم کے بعد ہوا) اور تیسرا یہ کہ اس کی امداد کرنے کا بوجھ اتحادیوں پر نہ آ جائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جنگ عظیم ختم ہونے کے بعد اگلے کئی سال تک مغربی جرمنی کی معیشت خراب تر ہوتی گئی۔ آخر، 1948 میں یورپ کی تعمیرِ نو کے مارشل پلان میں جرمنی کو شامل کیا گیا اور اس کو امریکی امداد ملنے لگی۔ جرمنی نے اپنی پچھلی کرنسی ختم کر دی۔ جرمن مارک کا اجراء ہوا۔ جرمنی کی قانون سازی پر اتحادی افواج نے اپنا ویٹو کا حق برقرار رکھا۔ لیکن جرمنی کے پہلے چانسلر کونراڈ ایڈینار نے اپنی مہارت سے کمیونسٹ حملے کے خطرے کو استعمال کرتے ہوئے اتحادیوں سے اختیارات جرمنی کے لئے حاصل کرنا شروع کر دئے۔ ان کے معاشی امور کے وزیر لڈوگ ایرہارڈ نے تبدیل شدہ فری مارکیٹ پالیسیاں تشکیل دیں اور مارشل پلان کو استعمال کرتے ہوئے ایک انتہائی کامیاب معاشی بحالی کا کارنامہ سرانجام دیا جس کو “ورٹشافٹسونڈر” یا “معاشی معجزہ” کہا جاتا ہے۔ راشن بندی ختم ہو گئی۔ صنعتی پیداوار اور معیارِ زندگی میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ ایک جرمن کا گاڑی اور گھر خریدنے کا خواب حقیقت بننے لگا۔

ساٹھ کی دہائی تک یہ برطانیہ سے زیادہ خوشحال نظر آتا تھا۔ کچھ برطانوی یاد کرتے تھے، “جرمنی جنگ ہار گیا تھا، برطانیہ جنگ جیت گیا تھا لیکن اب ہارنے والا جیتنے والے سے آگے تھا”۔ سیاسی طور پر مغربی جرمنی نے 1955 میں آزادی حاصل کی اور اتحادیوں کا یہاں پر فوجی قبضہ ختم ہو گیا۔ اتحادیوں نے جرمنوں کو غیرمسلح کرنے کے لئے دو جنگیں لڑی تھیں۔ مغربی جرمنی اب اپنی فوج بنانے لگا۔ خود نہیں بلکہ مغربی ممالک کے زور دینے پر!! تا کہ مغربی یورپ کے دفاع میں یہ شرکت کر سکے۔ (مغربی جرمنی کی پارلیمنٹ نے فوج دوبارہ بنانے کی مخالفت کی تھی)۔ دس سال میں پالیسیوں میں ہونے والی یہ سب سے حیران کن تبدیلی تھی۔

مغربی جرمنی کی معیشت مزدوروں کے ساتھ بہتر تعلقات، ہڑتالوں کی عدم موجودگی اور روزگار کی لچک کے حوالے سے پہچانی جاتی ہے۔ آجر اور ملازمین میں ایک اَن لِکھا سمجھوتا رہا ہے کہ ملازمین ہڑتال نہیں کریں گے تا کہ کاروبار ترقی کرتے رہیں اور آجر اس نشوونما کو ملازمین کے ساتھ شئیر کریں گے۔ جرمن صنعت اپرنٹس سسٹم پر ڈویلپ ہوئی ہے جو آج بھی پایا جاتا ہے۔ نوجوان کمپنیوں میں اپرینٹس کا کام کرتے ہیں۔ ان کو اپنا فن سیکھنے کے دوران معاوضہ بھی ملتا ہے۔ اس اپرینٹس شپ کے آخر میں عام طور پر ان کے پاس اس کمپنی میں ملازمت ہوتی ہے۔ آج، جرمنی یورپ کی سب سے بڑی اکانومی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لیکن یہ سب کچھ ممکن اور دیرپا بالکل بھی نہ ہوتا، اگر جرمنی میں معاشرتی اور سیاسی تبدیلیاں نہ آتیں۔ ایک غیرمعمولی جرمن وکیل، پرتشدد مظاہروں اور ایک غیرمعمولی سربراہِ حکومت کا اس میں اہم کردار تھا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں