باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

پیر، 6 جنوری، 2020

جرمنی ۔ ماضی کے عفریت (قسط سوئم)

انتہاپسند قومیت پرست سیاسی آئیڈیولوجی نازی ازم جرمن تاریخ کا ایک بدنما داغ ہے۔ اس کی پیدائش جرمنی میں ہوئی، یہاں پروان چڑھا اور مقبول ہوا۔ جرمنوں نے ہی اس پارٹی کو منتخب کیا تھا۔ اس کی جڑ جرمن روایات، تاریخ اور کلچر تھا۔ نازی جرمنی میں چھوٹی اقلیت نہیں تھے۔ جنگ میں شکست کھا جانا ایک چیز ہے لیکن کیا کوئی قوم اپنے ماضی کو عاق کر سکتی ہے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جنگِ عظیم دوئم کے آخر میں اتحادیوں نے نازیوں میں سے چوبیس بڑے لیڈروں پر نورمبرگ میں جنگی جرائم کا مقدمہ چلایا۔ دس کو سزائے موت ہوئی جس میں وزیرِ خارجہ جوئیکم ربنٹروپ اور فضائیہ کے سربراہ ہرمن گورنگ بھی تھے (گورنگ نے اس پر عملدرآمد سے پہلے ہی خودکشی کر لی)۔ سات کو طویل مدت کی قید دی گئی۔ اس کے علاوہ کئی نچلے رینک والے نازیوں کو مختصر مدت کی قید سنائی گئی۔

لیکن نورمبرگ ٹرائل یا کئی دوسرے اقدامات نے جرمن نازی ازم کے مسئلے کو حل نہیں کیا۔ کئی ملین نازیوں کو کچھ نہیں کہا گیا۔ یہ ٹرائل دوسرے ممالک والے کر رہے تھے۔ جرمنی میں اس سب کو “سیگرجسٹس” یا “فاتح کا انتقام” کہہ کر سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا تھا۔ کیا جرمن اپنے اعمال کی خود ذمہ داری لینے کے لئے تیار تھے؟ یہ جرمن قوم کے لئے ایک بڑا سوال تھا۔

ایک عملی مسئلہ یہ تھا کہ حکومت اور نظام چلانے کے لئے تجربے کی ضرورت ہے اور تقریباً تمام تجربہ کار لوگ نازی حکومت سے تعلق رکھتے تھے۔ سوائے ان کے، جن کو نازیوں کی وجہ سے ملک بدر ہونا پڑا تھا یا جو نازی جیلوں میں رہے تھے۔ جرمنی کے پہلے چانسلر  کونریڈ اڈینار خود بھی ایسے تھے۔ یہ کولون کے مئیر ہوا کرتے تھے، جن کو نازیوں نے نکال دیا تھا۔

جب آبادی کے اندر اتنی واضح اور اتنی بڑی تقسیم ہو تو انتقام اور بدلہ لینے کی پالیسی بنانا آسان ہوتا ہے۔ ایسے ممالک جلد ہی خانہ جنگی کا شکار ہو جاتے ہیں لیکن اڈینار کی پالیسی “معافی اور اتحاد” کی پالیسی تھی۔ ماضی میں کس نے کیا کیا؟ اس کو ایک طرف کر کے فوری مسائل کی طرف توجہ۔ کروڑوں لوگوں کی خوراک اور رہائش کا بندوبست، تباہ ہونے والی شہروں کی تعمیر، تباہ حال معیشت کی واپسی، بارہ سال کی نازی حکومت کے بعد جمہوری اقدار کی بحالی۔ اڈینار کا یہ طریقہ بہت موثر رہا۔ ملک انتقام کے نہ ختم ہونے والے چکروں کے پھندے کا شکار ہونے سے محفوظ رہا۔ لیکن اس پالیسی کی ایک تاریک سائیڈ بھی تھی۔

اس کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ زیادہ تر جرمنوں کا یہ تصور بنا کہ نازی ایک چھوٹی اقلیت تھے اور عام جرمن قصوروار نہیں تھا۔ عام جرمن فوجی ہیرو تھا جس کا جنگی جرائم کے ساتھ تعلق نہیں۔ کئی حلقوں کی طرف نازی دور کا دفاع بھی کیا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ جرمن نازیوں کی طرف سے یہودیوں سمیت دوسرے گروہوں کے قتلِ عام کا بھی انکار کیا جانا بھی عام تھا۔ ہٹلر کی ریکارڈ شدہ تقاریر کو بھی سنا جاتا تھا۔ یہ سب 1958 میں تبدیل ہوا۔ جب تمام مغربی جرمنی کے صوبوں نے ملک کر ایک مرکزی دفتر قائم کیا کہ جرمنی کے اندر اور باہر رہنے والے جنگی جرائم کے مرتکب افراد پر مقدمات چلائیں جائیں۔ اس پر فرٹز بائیر کا کردار سب سے نمایاں رہا جو جرمن صوبے ہسن کے چیف پروسیکیوٹر تھے۔ ان کا ماٹو تھا کہ “جرمن احتساب جرمنوں کے لئے۔ یہ باہر کے کرنے والوں کا کام نہیں۔ ہمیں اپنے ماضی کا خود سامنا کرنا ہے”۔ 1956 سے لے کر 1969 تک وہ یہ کام کرتے رہے۔

فرٹز ہائیر کی شہرت جرمنی کے آشوٹز ٹرائلز سے ہوئی۔ آشوٹز جرمنی کا سب سے بڑا بیگار کیمپ تھا (یہ اس وقت پولینڈ میں ہے)۔ اس کی پاداش میں جن لوگوں کو عدالت میں لایا گیا، اس میں ہر سطح کے لوگ تھے۔ کپڑوں کے کمرے کے مینجر، فارماسسٹ، ڈاکٹر، نازی پولیس کے نچلے درجے کے افسر، جرمن جج، فوجی جن پر مشرقی محاذ پر جرائم کا الزام تھا۔ فوجیوں کو عدالت میں لانا جرمن نفسیات کے لئے یہ سب سے بڑا دھچکا تھا کیونکہ عام سوچ یہ تھی کہ جرائم میں ایس ایس جیسے جنونی تو تھے، جرمن فوج نہیں۔

ان سب کے ساتھ ساتھ اس جگہ کے بائیر نے سب سے اہم اور سب سے گھناونے کرداروں کو ڈھونڈنا شروع کیا۔ ہٹلر کے اسسٹنٹ مارٹن بورمان کو۔ اس کیمپ کے ڈاکٹر جوزف مینگیل کو، جو قیدیوں کو میڈیکل تجربات کے لئے دلخراش طریقوں سے استعمال کرتے رہے۔ ایڈولف آئیکمین کو، جن کا کام یہودیوں کو پکڑنا تھا۔ اس میں ان کو کامیابی نہیں ہوئی لیکن بائیر توجہ کا مرکز بن گئے۔

جرمنی میں اس سب کام میں عام لوگوں نے دلچسپی لینا شروع کی۔ ساٹھ کی دہائی کے جرمنوں کو پتا لگنا شروع ہوا کہ تیس اور چالیس کی دہائی کے جرمن کیا کرتے رہے ہیں۔ جن پر مقدمہ چلایا جاتا تھا، ان کے پاس ایک ہی طرح کا دفاع ہوتا تھا۔ “میں صرف احکام پر عملدرآمد کر رہا تھا”۔ “یہ اس وقت کے معاشرے کی اقدار تھیں”۔ “میرا کام لوگوں کو مارنا نہیں تھا، میں صرف ان کو ٹرین کے ذریعے عقوبت خانوں تک پہنچانا تھا”۔ “میں نے خود کسی کو نہیں مارا”۔ “میں اس وقت نازی نظریے کے ہاتھوں اندھا ہو گیا تھا”۔ “میں پہچان نہیں سکا کہ میں کر کیا رہا ہوں”۔

بائیر کا جارحانہ جرح کا طریقہ مشہور بھی ہوا اور مقبول بھی۔ “ٹھیک یا غلط کا ایک شخصی پیمانہ بھی ہے”۔ “قتل کی مشین کا حصہ بننے والا خود بھی قصوروار ہے”۔ “مجبوری نہیں، یہ مرضی سے کیا گیا کام تھا”۔

بائیر زیادہ تر مقدمات میں ناکام رہے۔ زیادہ تر کو بری کردیا گیا۔ خود ان پر زبانی اور جسمانی حملے ہوئے۔ قتل کی دھکمیاں ملیں۔ لیکن اس سب سے جو نتیجہ نکلا، وہ کسی کی سزا سے کہیں زیادہ اہم تھا۔ جرمن قوم کے سامنے ان کے اپنے ماضی کی تصویر بنتی گئی۔ واضح ہوتی گئی۔ جرمنی میں جو ہوا، اس سے کسی نے بھی ان الزامات کی صحت سے انکار نہیں کیا۔ یہ چند لوگوں کا کام نہیں تھا۔ اس میں جرمنی بطور قوم شریک تھا۔ مغربی جرمنی کی اس وقت کی حکومت کے سئنیر افراد بھی اس کا حصہ تھے۔ جرمن قوم نے انسانیت کے خلاف جرائم کئے تھے۔ جرمن طالبعلموں کی 1968 کی بغاوت کا اہم پس منظر بائیر کی یہ کوششیں تھیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج کے جرمنی میں نازی دور کے واقعات کے میوزیم ہیں۔ کے زی سائٹ جیسی جگہیں ہیں جہاں پر جانا، ہر چیز کا علم ہونے کے باوجود، ایک لرزہ خیز تجربہ ہے۔ جرمن اپنے ماضی سے آنکھ نہیں چراتے۔ وہ اپنا احتساب خود کر چکے ہیں۔

اس وقت دنیا میں کوئی بھی اور ملک ایسا نہیں جس نے ایسا کیا ہو۔ جاپان میں نئی نسل کو جاپانیوں کے قتلِ عام اور جرائم کا کچھ بھی نہیں بتایا جاتا۔ امریکہ کی قومی پالیسی میں بچوں کو امریکیوں کی ویتنام میں یا امریکی سیاہ فام آبادی کے ساتھ یا مقامی انڈینز کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک کے بارے میں آگاہ کرنا نہیں۔ اس سے بھی ایک قدم آگے جا کر انڈونیشیا نے اپنی تاریخ سے 1965 کو حذف ہی کر دیا ہے۔ پاکستان نے بنگلہ دیش کے قیام کے واقعات کو اپنی تاریخ سے مٹا دیا ہے۔ قومی تفاخر کے لئے حقیقت پر پردہ ڈالنے کی اس روایت کے برعکس، جرمنی میں ستر کی دہائی کے بعد سے سکول میں بچے نازی مظالم کا تفصیل سے پڑھتے ہیں۔ تعلیمی اداروں کے ٹرپ ان یادگاروں پر جاتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نظریاتی اختلافات اور تلخیوں کے ساتھ دولخت ہو جانے والا، اپنے تمام ہمسائیوں پر فوج کشی کرنے والا، نسل پرستی کو قومی پالیسی بنانے والا جرمنی ۔۔۔  چند ہی دہائیوں میں دو ممالک سے ایک ہو گیا، اپنے سابق بدترین دشمنوں کا بہترین دوست ہے، یورپی یونین میں قیادت کا کردار ادا کر رہا ہے۔ یہ ممکن نہ ہوتا اگر جرمنی اپنے ماضی کے عفریتوں کو شکست نہ دیتا۔ اور اس پیشرفت کا ایک اہم سال 1968 تھا۔ وہ وقت جب جرمن نوجوانوں نے اپنی پچھلی نسل سے ایک بغاوت کی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ساتھ لگی تصویر کے زی ڈاشاو کیمپ کے میوزیم کی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں