باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

پیر، 6 جنوری، 2020

جرمنی ۔ معاشرتی تبدیلیاں (قسط نمبر چار)

ساٹھ کی دہائی مغربی دنیا میں انقلابوں اور احتجاج کی دہائی تھی۔ خاص طور پر طلباء کی طرف سے۔ امریکہ میں سول رائٹس کی تحریک، ویتنام کی جنگ کے خلاف تحریک، فری سپیچ موومنٹ۔ فرانس، جاپان، اٹلی اور جرمنی میں بھی نئی نسل کی پرانی نسل کے خلاف بغاوت نظر آ رہی تھی۔ جگہ جگہ پر مظاہرے ہوا کرتے تھے۔ مظاہروں نے سب سے زیادہ شدت جرمنی میں اختیار کی۔ یہ ساٹھ کی دہائی میں ہوتے رہے لیکن 1968 وہ سال تھا جب یہ پریشر ککر پھٹ گیا۔

یہ وہ وقت تھا جب طلبا میں سے تمام جنگِ عظیم دوئم کے بعد  پیدا ہوئے تھے۔ نہ ہی نازی ازم سے واقفیت تھی، نہ اس سے ہمدردی۔ نہ جنگ کا تجربہ ہوا تھا اور نہ ہی اس کے بعد کی غربت اور معاشی بدحالی کا۔ یہ طلباء اس وقت پیدا ہوئے تھے جب جرمنی معاشی ترقی کر رہا تھا اور ملک کے لئے اچھے وقت تھے۔ کسی کو زندہ رہنے کے لئے جدوجہد نہیں کرنا پڑی تھی۔ آرام اور محفوظ زندگی گزارنے والے نوجوانوں نے اپنی ٹین ایج میں وہ وقت دیکھا تھا جب فرٹز بائیر جرمنی کے ماضی کو بے نقاب کر رہے تھے۔ ان کے والدین نے ہٹلر کو ووٹ دئے تھے، ہٹلر کے احکام مانے تھے، کئی ہٹلر کے لئے لڑے تھے یا تنظیم کا حصہ رہے تھے۔ یہ نئی نسل اپنی پچھلی نسل پر تنقید کرتی تھی۔ “ابو، آپ اس وقت کہاں تھے” کا جواب “بچے، تمہیں نہیں پتا کہ وہ وقت کیسا تھا” سے تسلی نہیں دیتا تھا۔

اسی لئے یہ مظاہرے صرف جرمنی میں ہی نہیں بلکہ جاپان اور اٹلی میں بھی پرتشدد شکل اختیار کر گئے۔ پرانی اسٹیبلشمنٹ سے نہ صرف شکایت تھی بلکہ نئی نسل میں ان کی عزت بھی نہیں تھی۔ (اس کا یہ مطلب نہیں کہ دوسرے ممالک میں طلباء پچھلی نسل پر تنقید نہیں کرتے تھے۔ صرف یہ کہ انہیں جنگی مجرم نہیں سمجھتے تھے)۔

جرمن یوتھ بھی انہی چیزوں پر احتجاج کر رہی تھی جس پر باقی دنیا کے “ہپی”۔ ویت نام جنگ، اتھارٹی، کیپیٹلزم، روایتی اخلاقیات کے خلاف۔ کئی باغی بائیں بازو کے انتہاپسند تھے۔ کچھ مشرقی جرمنی بھی چلے گئے۔ مشرقی جرمنی نے بھی ان کی مدد کی۔

کئی نے دنیا کے دوسرے ممالک سے تربیت لی۔  جرمن دہشتگرد گروپ روٹے آرمئی فریکشن (سرخ فوج کا دھڑا) خاص طور پر بدنام تھا۔ دکانوں میں آتشزدگی، اغوا، قتل، بم سے حملے ان کا طریقہ کار تھا۔ “اسٹیبلشمنٹ” سے تعلق رکھنے والے لوگ ان کے معتوب ٹھہرے۔ ڈیوش بینک کے چیف، ویسٹ برلن سپریم کورٹ کے صدر، جرمنی ایمپلائیرز ایسوسی ایشن کے سربراہ اغوا ہونے والوں میں تھے۔ اس کے نتیجے میں جرمن لیفٹ ونگ تنظیموں میں زیادہ تر نے ان سے قطع تعلق کر لیا۔ مغربی جرمنی میں دہشتگردی کا دور 1971 سے 1977 تک رہا۔ 1977 میں آنڈرئیس بآڈر اور دو دوسرے لیڈروں نے طیارہ اغوا کرنے کی کوشش کی تا کہ ساتھیوں کو جیلوں سے رہا کروا سکیں لیکن اس کی ناکامی پر پکڑے گئے اور خود کشی کر لی۔ جرمنی میں دہشتگردی کی دو مزید لہریں آئیں۔ آخر کار، 1998 میں سرخ فوج کے اس فیکشن نے اپنے تحلیل ہو جانے کا اعلان کیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جرمن طلباء کی بغاوت کو عام طور پر “کامیاب ناکامی” کہا جاتا ہے۔ یعنی کہ یہ طلبا جمہوری حکومت کو ختم کرنے یا نیا معاشی نظام لانے میں ناکام رہے لیکن اپنے کئی مقاصد بالواسطہ حاصل کر لئے۔ ان کے ایجنڈے کی کئی چیزیں مغربی جرمن حکومت نے اختیار کر لیں اور کئی خیالات مین سٹریم جرمن معاشرے کا حصہ بن گئے۔ ان مظاہروں کے شرکاء مغربی جرمنی کی گرین پارٹی میں اہم سیاسی پوزیشنوں تک پہنچے۔ جیسا کہ جوشکا فشر، جو ایک وقت میں پتھر پھینکنے والے ریڈیکل تھے اور بعد میں نفیس سوٹ اور اعلیٰ مشروبات کا ذوق رکھنے والے وزیرِ خارجہ اور وائس چانسلر بنے۔

روایتی جرمن سوسائٹی تاریخی طور پر سیاسی اور معاشرتی طور پر آمرانہ رہی۔ یہ خاصیتیں ہٹلر سے بہت پہلے بھی تھیں۔ نازی سوسائٹی نے اس روایتی قدر کو “فوہررپریزپ” (لیڈر کا اصول) کے تحت دوچند کر دیا تھا۔ بغیر سوال کئے لیڈر کی بات ماننا جرمن اقدار میں سے تھا۔

جرمنی کو دوسری جنگِ عظیم میں بری شکست ہوئی لیکن پرانے طریقے تبدیل نہیں ہوئے۔ ساٹھ کی دہائی کا جرمنی معاشرتی حوالے سے زیادہ تبدیل نہیں ہوا تھا۔ مثال کے طور پر، بچوں کی پٹائی کرنے کی نہ صرف اجازت تھی، بلکہ عام رواج تھا اور اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی۔ کسی ادارے میں سربراہ کے فیصلوں کو چیلنج کرنے کا تصور نہیں تھا۔ جگہ جگہ، سڑکوں پر، لان میں، سکولوں میں، عمارتوں میں، سائن لگے ہوتے تھے کہ کیا چیز منع ہے، کونسا کام نہیں کرنا۔

جرمنی میں ایکٹوزم کی تحریکوں کے نتیجے میں ہونے والی تبدیلیوں میں اس رویے کی تبدیلی بھی تھی۔ اس کی ایک مثال 1962 کا واقعہ ہے۔ ایک ہفت روزہ ڈر سپیگل نے ایک آرٹیکل میں حکومت پر تنقید کی اور کہا کہ جرمن فوج کمزور ہے۔ وزیرِ دفاع فرانز جوزف سٹراس نے اس کے ایڈیٹر کو غداری کے الزام میں گرفتار کر لیا۔ اس کے بعد عوامی غصے کی وجہ سے نہ صرف یہ کارروائی ختم کرنا پڑی بلکہ وزیرِدفاع کو استعفےٰ دینا پڑا۔ حکومت کی طرف سے ایسے کام جو معمول کا حصہ سمجھے جاتے تھے، وہ اب قابلِ قبول نہیں رہے تھے۔

آج کا جرمنی سوشلی 1961 کے مقابلے میں معاشرتی طور پر بہت زیادہ لبرل ہے۔ نہ صرف بچوں کو مارا نہں جاتا بلکہ یہ قانونی طور پر منع ہے! لباس غیررسمی ہو گئے ہیں۔  گفتگو کے طریقے میں بھی رسمی طریقے تبدیل ہو گئے۔ کسی کے لئے احترام کے لئے استعمال ہونے والا لفظ “سائی” اب شاذ ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ خواتین معاشرے برابری کا رول ادا کرتی ہیں۔ سب سے زیادہ طویل عرصہ رہنے والی انجیلا مرکل چودہ سال سے جرمن چانسلر ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ساٹھ کی دہائی کے اس کلچرل انقلاب نے نئی آنے والے حکومت کی راہ ہموار کی۔ برانٹ 1969 میں جرمن چانسلر بنے۔ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے کرشماتی لیڈر جن کا نعرہ “تبدیلی کی جرات” کا تھا۔ اور انہوں نے اس نعرے پر عمل کر دکھایا۔



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں