باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

منگل، 7 جنوری، 2020

جرمنی ۔ معافی سے یکجائی تک (قسط نمبر پانچ)





دنیا کی تاریخ جرات مند لوگ لکھتے ہیں۔ جرات، وہ انسانی جذبہ ہے، جو تاریخ کا رخ موڑ دیتا ہے۔ یہ خود کئی طرح کی شکل اختیار کرتا ہے۔ ساتھ لگی تصویر تاریخ کا رخ موڑنے والے جرات کے ایک غیرمعمولی مظاہرے کی ہے۔ جھک جانے کی جرات دکھانے والے یہ شخص جرمنی کے سربراہ ولی برانٹ ہیں۔ اس کے بارے میں جاننے کے لئے اس کا کچھ پس منظر۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جرمنی میں ساٹھ کی دہائی لبرلائزیشن کی دہائی تھی۔ یہ رجحان 1968 کے مظاہروں کے بعد مضبوط تر ہو گیا۔ 1969 میں کنزرویٹو پارٹی انتخابات میں شکست کھا گئی۔ یہ مسلسل 20 سال سے جرمنی پر مختلف اتحادی پارٹنرز کے ساتھ حکومت کرتی آئی تھی۔ ولی برانٹ 1969 میں مغربی جرمنی کے پہلے چانسلر بنے جن کا تعلق بائیں بازو کی پارٹی سے تھا۔ ان کے زمانے کی سوشل اصلاحات کا جرمنی پر گہرا اثر ہے لیکن ان کی سب سے زیادہ بڑی کامیابی بیرونی تعلقات میں رہی۔

جرمنی دوسری جنگِ عظیم میں شکست کھانے کے بعد ملک دولخت ہو گیا تھا۔ مغربی جرمنی نے مشرقی جرمنی کی حکومت کو تسلیم ہی نہیں کیا تھا۔ دریائے اوڈر اور نیس کے پار جرمن زمین پر سوویت یونین اور پولینڈ کا قبضہ ہو گیا تھا۔ جرمنی کے اہم علاقے پولینڈ اور روس کے قبضے میں تھے۔ جرمنی ان علاقوں پر اپنے دعوے سے دستبردار نہیں ہوا تھا۔ مشرقی یورپ کے کسی بھی ملک سے سفارتی تعلقات تک قائم نہیں کئے گئے تھے۔ غیرحقیقی نیشنلزم ابھی تک قومی پالیسی تھی۔

برانٹ کی نئی خارجہ پالیسی میں انکار کی اس پالیسی کو پلٹا دیا گیا۔ مشرقی جرمنی سے معاہدے پر دستخط ہوئے۔ پولینڈ کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کئے۔ جرمن زمین کے چھن جانے کو تسلیم کر لیا گیا۔ دریائے اوڈر اور نیس کی لائن کو بین الاقوامی سرحد کے طور پر تسلیم کر کے ان حصوں پر اپنا دعویٰ ختم کر دیا گیا۔ اس میں سلیسیا کے علاوہ پروشیا اور پومیرانیہ کے علاقوں کا حصہ تھا جو بہت عرصے سے جرمن شناخت کے لئے مرکزی رہے تھے۔ یہ ایک بہت بڑا قدم تھا۔ اتنی کڑوی گولی تھی کہ جرمن کنزرویٹو پارٹی نے اعلان کر دیا کہ اگر وہ اگلے انتخابات جیت گئے تو یہ سب معاہدے منسوخ کر دیں گے۔ جرمن عوام نے اس کڑوی گولی کو نگل کر 1972 کے انتخابات میں برانٹ کی پارٹی کو پہلے سے زیادہ اکثریت سے کامیابی دلوا دی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

برانٹ کے کیرئیر کا سب سے ڈرامائی لمحہ اس وقت آیا جب وہ پولینڈ کے دارالحکومت وارسا میں 1970 میں گئے۔ پولینڈ دوسری جنگِ عظیم سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک تھا۔ نازی بیگار کیمپوں اور عقوبت خانوں میں اس کے شہریوں کو مارا گیا تھا۔ سب سے بڑا اور بدنام آشوٹز کا کیمپ پولینڈ کی سرزمین پر بنا تھا۔ پولینڈ کے لوگوں کے پاس جرمنوں سے نفرت کرنے کی بہت اچھی وجوہات تھیں۔ 7 دسمبر 1970 کو برانٹ اس جگہ پر گئے جہاں پر نازیوں کے خلاف وارسا میں ناکام بغاوت کی گئی تھی۔ اس جگہ پر پھول چڑھانے جانا جرمن مظالم کو تسلیم کرنا تھا اور جرمن قوم کی طرف سے اس سب پر پولینڈ سے معافی مانگنا تھا۔ اس دوران ولی برانٹ پولش مجمع کے سامنے، اچانک اپنے گھٹنوں کے بل گر پڑے۔ اور اپنا سر جھکا دیا۔ اسی حالت میں آدھا منٹ خاموشی سے بیٹھے رہے۔

سفارتی تعلقات اور بیانات جذبات سے عاری سمجھے جاتے ہیں۔ ہر لفظ سوچ سمجھ کر ادا کیا جاتا ہے۔ ہر حرکت پہلے سے طے شدہ میکانکی طریقے سے کی جاتی ہے۔ تقریریں لکھی جاتی ہیں۔ ریہرسل کی جاتی ہے۔ یہ ایسا نہیں تھا۔ پولینڈ کے وہ لوگ بھی جو جرمنی پر بالکل بھروسہ نہیں کرتے تھے، انہوں نے بھی کہا کہ برانٹ کی یہ معافی بغیر پلاننگ کے، مخلصانہ اور دل سے مانگی گئی تھی۔ برانٹ کا یہ کام ایک ملک کے عوام کے لئے ایک لیڈر کا ایک منفرد عمل تھا۔ نہ جاپان نے چین اور کوریا سے کسی قسم کی معافی مانگی، نہ سٹالن نے پولینڈ یا یوکرائن سے، نہ ڈی گال نے الجیریا سے۔ اپنے قومی وقار کا بوجھ کسی کو ایسا نہیں کرنے دیتا۔ (موازنے کے لئے: برانٹ کا صرف اس جگہ پر جانا ہی اتنا غیرمعمولی تھا جیسے پاکستان کا کوئی سربراہ بنگلہ دیش کے دورے کے دوران سوار میں یادگارِ شہداء پر جائے)۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

برانٹ 1974 تک چانسلر رہے۔ وارسا کے دورے سے بیس برس بعد جرمنی کو ان کے لئے گئے اقدامات کا بڑا سیاسی انعام ملا۔ یہ مشرقی جرمنی کی مغربی جرمنی سے ہو جانے والی یکجائی کی صورت میں تھا۔

ان کے بعد آنے والے چانسلر ہلمٹ شمٹ اور پھر ہلمٹ کوہل نے برانٹ کی پالیسیاں جاری رکھیں۔ مشرقی جرمنی سے تعلقات رکھے، تجارت کی، مشرقی یورپ کے ممالک سے دوستانہ روابط بنائے۔ لیڈروں سے ذاتی تعلقات قائم کئے۔ مشرقی بلاک اور مغربی بلاک، دونوں طرف کے ممالک کے لئے جرمنی قابلِ بھروسہ پارٹنر تھا۔ ایسا ملک نہیں، جس سے خوف کھایا جائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مشرقی جرمنی کے لوگ ٹی وی پر مغربی جرمنی کی نشریات دیکھتے تھے۔ ان کا بڑھتا معیارِ زندگی، اپنے سے بڑھتا فرق۔ اقتصادی اور سیاسی لحاظ سے فرق۔ سوویت یونین خود جب مشکلات کا شکار ہوا تو مشرقی جرمنی کا خاتمہ ایسا کام تھا جو کسی کے بھی کنٹرول سے باہر تھا۔ 2 مئی 1989 کو ہنگری نے آسٹریا کی سرحد پر قائم کردہ باڑ ہٹا دی۔ چار مہینے بعد گیارہ ستمبر کو یہ سرحد کھول دی۔ مشرقی جرمنی سے ہزاروں لوگوں نے چیکوسلواکیہ اور ہنگری کے راستے مغربی جرمنی کا سفر کیا۔ جلد ہی لاکھوں لوگ مشرقی جرمنی میں لیپزگ اور دوسرے شہروں کی سڑکوں پر حکومت سے سرحد کھولنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ حکومت نے اعلان یہ کرنا تھا کہ وہ جلد ہی مغربی جرمنی جانے کے لئے پرمٹ جاری کرے گی۔ ٹی وی پر اس کا اعلان پڑھنے میں غلطی ہوئی اور سننے والوں لگا کہ یہ کام کر دیا گیا ہے۔ اس رات 9 نومبر 1989 کو دسیوں ہزار لوگ یہ سرحد پار کرنے پہنچ گئے۔ اس دفعہ گارڈز نے انہیں کچھ نہیں کہا۔ برلن دیوار گر گئی۔

مئی 1990 کو اقتصادی اور سوشل ویلفئیر یکجا کرنے کا معاہدہ ہوا۔ سیاسی یکجائی میں رکاوٹیں دور کرنا آسان نہیں تھا۔ اس سلسلے میں سوویت یونین کے صدر سے ہلمٹ کوہل کی اہم ملاقات جولائی 1990 کو ہوئی۔ سوویت یونین کو بہت بڑا فائننشل پیکچ دیا گیا۔ اس سے نہ صرف یکجا کرنے کی، بلکہ متحد جرمنی کو ناٹو میں رکھنے کی اجازت بھی ملی۔ یعنی یہ دو ممالک کا ادغام نہیں تھا بلکہ مشرقی جرمنی کو مغربی جرمنی نے جذب کر لیا تھا۔ 3 اکتوبر 1990 کو مشرقی جرمنی کے ڈسٹرکٹ جرمنی کی سٹیٹ بن گئے۔

 نہ گولی چلانا پڑی، نہ کوئی تحریک چلی۔ مشرقی جرمنی تحلیل ہو گیا۔ ایک وقت میں تلخ تعلقات اور مخالف نظریات رکھنے والے ہمسائے مل گئے۔ جرمنی ایک ملک بن گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

برانٹ اپنے اس لمحے کے بارے میں کہتے ہیں۔ “صرف پھول کافی نہیں تھے۔ مجھ پر تاریخ کا بھاری بوجھ تھا۔ میں نے وہ کیا جو لوگ اس وقت کرتے ہیں جب ان کے پاس الفاظ نہیں ہوتے”۔

برانٹ کی اس حرکت کو مثبت ردِ عمل فوری طور پر نہیں ملا تھا۔ ان کو اپنے ملک میں تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ ان پر تنقید کرنے والے اپنی پارٹی کے لوگ بھی تھے۔ اس وقت ہونے والے ایک سروے کے مطابق جرمن عوام کی اکثریت کے خیال میں ان کا ایسا کرنا غلط تھا۔ پولینڈ کے دورے کے فوراً بعد ان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لائی گئی جو صرف دو دوٹ کے فرق سے ناکام ہوئی۔ لیکن یہ سوچ جلد ہی تبدیل ہو گئی۔ برانٹ کی اوسٹپولیٹک (دوستی کی سیاست) کے فوائد نظر آنے لگے تھے۔ اگلے انتخابات میں اس عمل کو اپوزیشن نے انتخابی مہم میں ایشو بنایا۔ نومبر 1972 میں برانٹ نے انتخابات میں آسائی سے کامیابی حاصل کی۔

مشرقی اور مغربی یورپ کے درمیان مصالحت کا کردار ادا کرنے پر انہیں نوبل انعام ملا۔ ولی برانٹ جرمن سیاسی تاریخ میں ایسی شخصیت سمجھے جاتے ہیں جن کا احترام ان کے مخالف بھی کرتے ہیں۔ یہ تصویر جس جگہ کی ہے، وہ آج انہی کے نام سے منسوب ہے۔ اس جگہ پر پولینڈ نے ان لمحے کی یادگار تعمیر کروائی ہے جس کا افتتاح 6 دسمبر 2000 کو ہوا۔ وارسا میں وہ جگہ جو پڑوسی ملک کے قبضے اور بدترین مظالم کی علامت بنی، آج اس جگہ کا نام اور اس کی یادگار اسی پڑوسی ملک کے سربراہ کے نام پر ہے۔  

دنیا کی تاریخ جرات مند لوگ لکھتے ہیں۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں