باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

منگل، 27 ستمبر، 2022

کیوں (2)

ہماری دنیا میں غیریقینیت ایک بنیادی عنصر ہے۔ اور ہم سب اس سے واقف ہیں۔ چار سو سال پہلے تک اس کی کوئی ریاضیاتی زبان نہیں تھی۔ لوگ اس کو روزمرہ زندگی میں بدیہی طور پر اس کے ساتھ معاملہ کرتے رہتے تھے۔ یعنی کہ ہماری بیرونی دنیا میں یہ موجود تھی لیکن ریاضی کی رسمی زبان میں اس کے اظہار کا طریقہ نہیں تھا۔
سترہویں صدی میں پاسکل اور فغماں نے پہلی بار وہ اوزار بنائے جو probability theory کہلاتے ہیں۔ اور ان کا پہلا عملی استعمال انشورنس کے کاروبار کیلئے سترہویں صدی کے آخر میں ہوا۔
ریاضی میں امکانات کی تھیوری کی یہ ایجاد آج سائنس، کاروبار سمیت کئی جگہ پر نظر آتی ہے۔  
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج کی دنیا کی ریاضی میں اسی طرح تعلق بتانے کے طریقہ تو ہیں لیکن “وجہ” کے اظہار کا رسمی طریقہ نہیں۔ (شماریات کی کتاب دیکھیں تو اس میں cause کا لفظ نہیں ہے۔ association یا relation کا ہے)۔
اور شاید یہ وجہ رہی ہے کہ کاز کے سوالات کو ہی غیرضروری سمجھا گیا ہے اور شماریات میں زور ڈیٹا کی تخلیص پر رہا ہے۔
سائنس میں یہ غلط یقین رائج رہا ہے کہ ڈیٹا کے اندر جوابات چھپے ہیں جن کو شماریاتی تکنیک یا ڈیٹا mining سے نکالا جا سکتا ہے۔  
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمیں یہ دھیان رکھنا چاہیے (جو کہ عام طور پر نہیں رکھا جاتا) کہ ڈیٹا خود میں ایک بے عقل شے ہے۔ ڈیٹا یہ بتا سکتا ہے کہ فلاں دوا سے بحالی جلد ہوئی لیکن یہ نہیں بتا سکتا کہ فلاں دوا سے بحالی جلد کیوں ہوئی؟ اور یہ بہت اہم سوال ہے۔
مثلاً، کہیں ایسا تو نہیں کہ فلاں دوا سے صحتیابی اس لئے ہوتی ہے کہ اس سے نیند آتی ہے اور اس بیماری میں لمبی نیند اور آرام کرنا جلد صحتیابی کے امکان کو بڑھا دیتا ہے؟ اگر وجہ کا علم ہو سکے تو ہی زیادہ موثر کام کئے جا سکتے ہیں۔
محض ڈیٹا کا اندھا تجزیہ کافی نہیں ہے۔ سائنس اور بزنس میں بار بار ہمیں ایسی صورتحال کا سامنا ہوتا ہے جب ڈیٹا کافی نہیں ہوتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارا ذہن یہ کام کرتا کیسے ہے؟ اس کے لئے متبادل حقیقت (counterfactual ) سے ریزن کرتا ہے۔
ایسے بہت سے سوالات ہیں جن کے مشاہدات جواب نکالنے کیلئے کافی نہیں ہوتے۔ لیکن ہم اپنے ذہن سے ہر وقت بہت قابلِ اعتبار نتائج اخذ کرتے رہتے ہیں کہ متبادل دنیا میں کیا ہو گا۔
مثال کے طور پر، مشہور مثال لیتے ہیں کہ “مرغے کی بانگ اور سورج کے طلوع ہونے کا تعلق ہے”۔ اور ہم سب اس پر اتفاق کرتے ہیں کہ اگر مرغا خاموش رہتا، تب بھی سورج طلوع ہوتا۔
اس بات پر اتفاق کیوں ہے؟ ہم سب نے اس کا تجربہ تو نہیں کیا۔ “متبادل حقیقت” محض تکے لگانا نہیں بلکہ دنیا کے بارے میں ہمارے ذہنی ماڈل کے سٹرکچر کی عکاسی ہے۔ ایسے دو لوگ جو کہ دنیا کے بارے میں ایک ہی کازل ماڈل رکھتے ہیں، ان کے دنیا کے بارے میں متبادل حقیقت کی رائے بھی ایک ہو گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
متبادل حقیقت نہ صرف سائنسی بلکہ اخلاقی رویے کا بنیادی بلاک بھی ہے۔ یہ صلاحیت کہ ہم اپنے ماضی کے اعمال اور حرکات کا جائزہ لیں اور پھر اس بات پر غور کریں کہ اگر کوئی اور راستہ لیا گیا ہوتا تو کیا ہوتا؟ متبادل حقیقت کا تصور کر لینا free will اور سماجی ذمہ داری کی بنیاد ہے۔
(جاری ہے)

 


 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں