باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

منگل، 27 ستمبر، 2022

کیوں (3)


جب ہم ارتقا کے بارے میں پڑھتے ہیں تو انسان کو کسی بھی نوع کے جد سے الگ ہوئے پچاس سے ساٹھ لاکھ سال گزر چکے ہیں۔ لیکن ہمیں ایک غیرمعمولی تبدیلی نظر آتی ہے جو شاید محض پچاس ہزار سال قبل کی ہے۔ اور اس کی وضاحت نہیں۔ کچھ مورخ اسے عظیم چھلانگ کہتے ہیں، کچھ اسے عقل کا انقلاب۔ لیکن انسان نے اپنے ماحول کو تبدیل کرنا سیکھ لیا اور اس دنیا کو بدلنے کی اپنی صلاحیتیں تیزی سے تبدیل کرنے کے قابل ہو گیا۔
انسان کے پاس عقاب یا الو جیسی نگاہ نہیں جو کہ ان کے پاس لاکھوں سالوں سے ہے لیکن صرف چند ہی صدیوں میں عینک، دوربین، خردبین جیسی اشیاء بنانے لگا۔ عقاب اور الو کی نگاہ تو اتنی ہی رہی ہے۔ اور یہ انسان کی ترقی کی مثال ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاید آپ اس پر اعتراض کریں کہ یہاں پر ارتقا اور انجینرنگ کا موازنہ غیرمنطقی ہے۔ لیکن یہی تو اصل نکتہ ہے۔ ہمیں جو تحفہ ملا ہے وہ اپنے زندگی انجینر کرنے کی صلاحیت ہے اور یہ الو یا عقاب کے پاس نہیں۔ اور یہاں پر پھر وہی سوال کہ “کیوں؟ آخر ایسا کیا ہے جو انسان کے پاس یکایک آ گیا جو عقاب کے پاس نہیں آیا؟”۔
اس پر بہت سی تھیوریاں پیش کی جا چکی ہیں۔ اور اس میں خاص چیز causation کے خیال کی ہے۔ ہم غیرموجود کا تصور کر سکتے ہیں۔ متبادل حقائق بنا سکتے ہیں۔
اگر ہم نتائج کا تصور نہ کر سکیں تو وجہ کا سوال بے معنی ہے۔ اور یہ سوال “منصوبہ بندی” کی صلاحیت بھی دیتا ہے۔
اور یہ ہمیں مصنوعی ذہانت کے بنیادی مسئلے سے بھی آگاہ کرتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مصنوعی ذہانت میں ڈیپ لرننگ کی کامیابی حیران کن ہے۔ اس نے ہمیں دکھایا ہے کہ کئی سوالات اور کام جو ناممکن سے لگتے تھے، اتنے دشوار نہیں۔ اور یہ وجہ ہے کہ کئی بار ایسا مغالطہ ہوتا ہے کہ ذہانت میں انسان کا مقابلہ کرنے والے مشینوں کا وقت اب دور نہیں۔ جب کہ یہ بات سچ کے قریب بھی نہیں۔ جارج مارکس لکھتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت کے شعبے میں دریافتوں کا طوفان ہے۔ ایسی چیزیں جو اچھی سرخی بنا سکیں، بے شمار ہیں۔ لیکن strong AI یا انسان جیسی ذہانت کے قریب قریب بھی نہیں۔ شاندار صلاحیت تو ہے لیکن ذہانت سرے سے نہیں ہے۔ اور یہ فرق بڑا ہے۔ کیونکہ مشین کے پاس رئیلیٹی کا کوئی ماڈل نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مشین لرننگ پروگرام ایسوسی ایشن کے ماڈل پر چلتے ہیں۔ مشاہدات کے ڈیٹا کو فنکشن پر فٹ کرنے کی کوشش ہے۔
ڈیپ لرننگ اس میں پیچیدگی کی تہوں کا اضافہ کر دیتی ہے لیکن بنیادی طریقہ وہی ہے۔ صرف یہ کہ زیادہ ڈیٹا فٹ کیا جا سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جبکہ دنیا میں صرف خشک fact نہیں ہیں (جنہیں ڈیٹا کہا جاتا ہے)۔ بلکہ یہ کاز اور ایفیکٹ کے تعلقات کے نازک جال سے بندھے ہوئے ہیں۔ دوسرا یہ کہ ہمارے علم کا بڑا حصہ facts پر نہیں بلکہ کاز کی وضاحتوں پر مشتمل ہے۔
(جاری ہے)

 


 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں