باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

بدھ، 7 جون، 2023

نیلا آسمان (6)


فلسفی اور سائنسدان قسم قسم کی توجیہات پیش کرتے رہے تھے۔ کسی کا خیال پیش کیا کہ یہ زرد سورج اور رات کی سیاہی کے درمیان کا رنگ ہے۔ کسی نے کہا کہ برف کے تیرتے ٹکڑوں کی وجہ سے ہے۔ اوزون کی چمک یا خوردبینی بلبلوں کی وضاحت بھی دستیاب تھی۔ ریلے نے دھوپ کو نامعلوم ذرات سے ٹکرا کر پھیل جانے کا راستہ لیا۔  
یہاں پر ایک بار فزکس کچھ خوفناک سی ہو جاتی ہے لیکن اہم چیز یہ ہے کہ کم ویولینتھ کی روشنی زیادہ ویولینتھ کی روشنی کے مقابلے میں زیادہ بکھرتی ہے۔ خاص طور پر نیلی روشنی جو کہ دھنک کے کسی اور رنگ کے مقابلے میں کم ویولینتھ رکھتی ہے، وہ سرخ یا نارنجی کے مقابلے میں زیادہ بکھر جاتی ہے۔
فرض کیجئے کہ آپ باہر ایک کمبل پر لیٹے بادلوں کو تیرتے دیکھ رہے ہیں۔ سورج سے دھوپ زمین تک پہنچی۔ یہ “سفید دھوپ” اصل میں کئی رنگوں سے ملکر بنی ہے جس میں نیلا بھی شامل ہے۔ ریلے کی تھیوری کے مطابق، نیلی روشنی کے بکھر جانے کا امکان زیادہ ہے۔ یہ نیلی روشنی کسی بھی سمت میں جا سکتی ہے۔ شمال میں، واپس اوپر یا کہیں بھی اور۔ لیکن اس میں سے کچھ حصہ آپ کی آنکھ کا رخ بھی کرے گا۔ اس کے علاوہ سرخ (یا زرد یا سبز) روشنی کا بھی کچھ حصہ آپ کی طرف آئے گا لیکن تناسب میں یہ نیلے سے کم ہو گا۔ اور یہ وجہ ہے کہ کسی بھی ایک وقت میں کسی ایک نقطے پر نیلا رنگ باقی کے مقابلے میں غالب رہے گا۔ اب اگر ایسے کھربوں نقطے ہوں تو ہمارا خوبصورت نیلگوں آسمان بنتا ہے۔
(جو لوگ رنگوں کی تھیوری سے واقف ہیں، وہ اس وضاحت کی غلطی پکڑ لیں گے۔ جامنی رنگ کی ویولینتھ نیلے سے کم ہوتی ہے تو اس وضاحت کے مطابق آسمان کو جامنی نہیں ہونا چاہیے؟ یہ درست ہے لیکن کئی دوسرے بھی عوامل شامل ہیں۔ ایک یہ کہ سورج کی روشنی میں جامنی ویولینتھ والی روشنی نیلے کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ دوسرا یہ کہ ہماری اپنی آنکھ کا ریٹینا جامنی کے بارے میں زیادہ حساس نہیں۔ نیلے آسمان کی مکمل وضاحت میں ریلے کے روشنی بکھرنے کے ساتھ دھوپ کا سپکٹرم اور ہماری آنکھ کا سرکٹ بھی شامل ہیں)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریلے نے اس وضاحت کو 1871 میں قلمبند کر لیا تھا۔ لیکن یہاں پر ایک کلیدی نکتہ ابھی نامکمل تھا۔ آخر وہ “نامعلوم” ذرات کونسے ہیں جن سے ٹکرا کر دھوپ بکھرتی ہے؟ کیا یہ دھول ہے؟ برف؟ جراثیم؟ ریلے نے نمک کے کرسٹل تجویز کئے تھے لیکن کسی کو معلوم نہیں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مشہور فزسسٹ جیمز کلارک میکسویل 1873 میں چھٹیاں گزارنے ہندوستان آئے تھے۔ ہمالیہ کے پہاڑوں میں وہ اپنے ہوٹل کے باہر بیٹھے منظر تک رہے تھے۔ یہ جگہ ماونٹ ایورسٹ سے سو میل کے فاصلے پر تھی اور یہ چوٹی انہیں دکھائی دے رہی تھی۔ فضا غیرمعمولی طور پر صاف تھی۔ ان کے ذہن میں سوال ابھرا کہ آخر ایسا کیوں ہے کہ ماونٹ ایورسٹ سے ان کے بیچ آنے والے گیس کے مالیکیولز نے روشنی جذب نہیں کر لی؟ اگر میکسویل زیادہ غور کرتے تو یقیناً یہ سوال سلجھا لیتے۔ وہ ایک کمال کے سائنسدان تھے جو روشنی کی اور تھرموڈائنامکس کی بنیادی تھیوریاں دوبارہ لکھ چکے تھے۔ انہوں نے اپنے خط میں لکھا کہ وہ اس بارے میں ذہن پر زور نہیں دینا چاہ رہے تھے اور انہوں نے یہ سوال ریلے کے سپرد کر دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریلے نے اس پر بہت وقت لیا۔ ربع صدی گزر چکی تھی۔ میکسویل وفات پا چکے تھے۔ 1899 میں ریلے نے آخرکار ضروری حساب کر لیا۔ اپنے اس کام کے ضمنی نتیجے میں انہوں نے معلوم کیا کہ ہوا کے مالیکیول دکھائی دی جانے والی روشنی بکھیرنے کے لئے پرفیکٹ سائز کے ہیں۔ تو ایسا نہیں تھا کہ نمک یا بلبلے یا کسی اور شے کی ضرورت تھی۔ ریلے نے لکھا، “کسی بھی ذرے کی غیرموجودگی میں بھی، آسمان ہمیشہ نیلا ہی ہو گا”۔ نائیٹروجن، آکسیجن اور آرگون وہ “نامعلوم ذرات” تھے جو کہ آسمان کا نیلا گنبد بناتے ہیں۔
اور ریلے کو یہ معلوم نہ ہو سکتا اگر ان کے پرانے دوست میکسویل نے ہندوستان میں اس روز ماونٹ ایورسٹ کو نہ دیکھا ہوتا۔ آسمان کو چھو لینے والی چوٹی کو دیکھنے والےکے  ذہن میں آنے والے سوال سے آسمان کے نیلے رنگ کا جواب معلوم ہو گیا۔

 

 
ختم شد




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں