باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعہ، 23 جون، 2023

تارکینِ وطن (۱)


شمال مغرب سینیگال میں جب ہائی وے ختم ہو جاتی ہے، پکی سڑک ختم ہو جاتی ہے، خراب سڑک ختم ہو جاتی ہے، کچا راستہ بھی ختم ہو جاتا ہے تو باؤباب کا درخت آتا ہے، وہاں سے بائیں ہاتھ مڑ جائیں۔ چلتے چلیں جائیں گے تو یہاں کی آخری بستی ڈیاماگوین کی ہے۔ انسانی آبادی کی نقل مکانی کے سفر سمجھنے کے لئے یہ ایک اچھی جگہ ہے۔
نقل مکانی اور موسمیاتی تبدیلی کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ نڈیاماگوین عجیب بستی ہے۔ ہنستے کھیلتے سکول جاتے بچے بچیاں، رنگین کپڑے پہنے خواتین یا بزرگ تو ہیں لیکن اس بستی میں میں کوئی نوجوان یا درمیانی عمر کا مرد نہیں۔
نہیں، یہاں کوئی بیماری نہیں۔ سب اسے چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ بدلتے موسم کی وجہ سے یہاں کے کھیتوں کی پیداوار اب لوگوں کا پیٹ بھرنے کے لئے کافی نہیں۔ بچوں کی بہتات ہے (سینیگال کی 44 فیصد آبادی کی عمر چودہ سال سے کم ہے)۔ بھرنے کو بہت سے پیٹ ہیں اور زمین اس قابل نہیں کہ سب کا بوجھ اٹھا سکے۔ تو کام کرنے والے مرد چار سُو پھیل چکے ہیں۔ کوئی روزگار مل جائے کہ وہ اپنے گھربار چلانے کے لئے پیسے بھیج سکیں۔ اور ایسا صرف یہاں پر نہیں۔
ان نوجوان لوگوں کو یہ بتایا جائے کہ اس بات کا امکان بہت ہی کم ہے کہ آپ یورپ پہنچ سکیں تو یہ جواب دیں گے کہ جب آپ کے پاس اپنی بیمار ماں کے لئے سردرد کی دوا بھی نہیں خرید سکتے تو آپ امکان کا حساب کتاب نہیں کرتے۔ بس، نکل لیتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گاؤں کے ستر سالہ سردار کا کہنا ہے کہ “ہماری گزر بسر کھیتی باڑی پر تھی لیکن اب یہ کافی نہیں رہا۔ خشک سالی کے برس پہلے بھی آتے رہے تھے لیکن اب حالات برے ہیں۔ بارشوں کا موسم جون سے اکتوبر تک ہوتا تھا لیکن اب اگست تک بارش کا انتظار کرنا پڑ جاتا ہے۔ اور پھر جب ہوتی ہیں تو اتنی تباہ کن کہ سیلاب آ جاتے ہیں اور فصل بہا لے جاتے ہیں۔ زمین مردہ ہو رہی ہے”۔
محکمہ موسمیات کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ پچھلی نصف صدی میں اوسط درجہ حرارت 2 ڈگری سینٹی گریڈ بڑھ گیا ہے اور سالانہ بارش 50 ملی میٹر کم ہو گئی ہے۔ تو یہاں رہنے والوں کے پاس بڑے شہروں یا پھر دوسرے ممالک میں جا کر قسمت آزمائی کرنے کے سوا چارہ نہیں ہے۔
چند خوش قسمت لوگ لیبیا کے راستے سے سپین یا جرمنی سمگل ہو جاتے ہیں۔ کم خوش قست لوگ لیبیا یا الجیریا یا ڈاکار میں روزگار پا لیتے ہیں۔ اور جن کے ساتھ قسمت نہیں ہوتی، وہ پھنس جاتے ہیں۔ نہ گھر واپس جا سکتے ہیں اور نہ ہی ان کے پلے کچھ ہوتا ہے۔ ایسے لوگ عسکریت پسند تنظیموں کے لئے تر نوالہ ہوتے ہیں۔ ملنے والے مہینے کے چند سو ڈالر ان کے لئے بہت پرکشش ہوتے ہیں۔
ایسے لوگوں کی کہانیاں عام ہیں جو بیوی بچوں کو چھوڑ کر گئے۔ ایک جگہ سے دوسری جگہ اور اگلے ملک ۔۔۔ اور پھر رابطہ ختم جو کبھی واپس بحال نہیں ہوا۔
زیادہ بچوں کی ایک وجہ یہ ہے کہ ان کو ایک سیفٹی نیٹ کے طور پر دیکھا جاتا ہے کہ یہ والدین کو بڑھاپے میں سنبھال لیں گے۔ بچپن میں والدین ان کو سنبھالیں گے اور بڑے ہو کر یہ الٹ ہو جائے گا۔ مضبوط سماجی روابط اور کمیونیٹی زندہ رہنے کے لئے ضروری ہے۔ لیکن اب زمین کی پیداوار کم ہونے اور مردوں کے علاقہ چھوڑ جانے کے سبب کمیونٹی دشوار حالات کا شکار ہے۔ سردار کا کہنا ہے کہ ایسا ہی رہا تو باقی سب کو بھی علاقہ چھوڑ دینا پڑے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سینیگال کے اہلکار عثمان نڈیائے کا کہنا ہے کہ “آپ ٹی وی کھولتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ یورپ میں لوگ اچھی زندگی گزار رہے ہیں۔ وہاں پر جمہوریت ہے۔ جبکہ آپ کی زندگی آسان نہیں۔ انسان ذہین مخلوق ہے۔ ایسے حالات میں اپنا راستہ نکالنے کے طریقے ڈھونڈتا ہی ہے”۔
(جاری ہے)




یہ اس کتاب سے لیا گیا اقتباس ہے

Thank you for being late by Thomas Friedman



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں