باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

بدھ، 15 نومبر، 2023

جغرافیہ کی طاقت (45) ۔ ترکیہ ۔ بدلتا مزاج


ترکی نے اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں اپنے ہمسائیوں سے بھی اور مغربی طاقتوں سے بھی خوشگوار تعلقات برقرار رکھے۔ بلقان اور مشرقی وسطی کے ساتھ نرم طاقت، تجارت اور سفارت کا طریقہ اپنایا۔ بوسنیا اور سربیا کی مصالحت کی کوششین کیں۔ اسرائیل اور سیریا کے مذاکرات کروائے۔ فلسطین کے متحارب گروہوں کی بات چیت کروائی اور اپنے تلخ ترین حریف آرمینیا کی طرف بھی ہاتھ بڑھایا۔ لیکن یہ سب بہت کامیاب نہیں رہا۔ ترکی کی اعلانیہ خواہش تھی کہ وہ اپنے تمام ہمسائیوں کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں چاہتا۔ لیکن کوئی مسئلہ نہ ہونے کے لئے آپ کو عدم مداخلت کی پالیسی اختیار کرنا پڑتی ہے۔ اور اگر آپ دیکھیں کہ دوسری طاقتیں ان ہمسائیوں میں مداخلت کر کے علاقے میں اپنی مرضی کر رہی ہیں تو پھر خاموش نہیں بیٹھا جاتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اکیسویں صدی کی دوسری دہائی شروع ہوئی تو ترکی اپنے صلح جوئی اور نرم خوئی کے رویے سے تھک چکا تھا۔ اور پھر جب عرب بہار کی لہر 2011 میں شروع ہوئی تو ترکی نے پالیسی بھی بدل لی۔
ترکی نے اسرائیل سے اچھے تعلقات قائم کئے تھے۔ بیس سال کے تعاون کے بعد یہ کشیدہ ہونے لگے۔ اور اس کا آغاز 2008 میں غزہ میں چھڑنے والے تنازعے سے ہوا۔ اس کے بعد دونوں ممالک کی مشترکہ جنگی مشقیں منسوخ ہو گئیں۔ ترک ٹی وی نے اسرائیل کے خلاف پروگرام دکھانے شروع کر دئے اور اردگان نے اعلانیہ مخالفت شروع کر دی۔
عرب بہار میں ترکی نے اکثر غلط گھوڑے کا انتخاب کیا۔ مصر میں اس نے اخوان المسلین کی حمایت کی۔ یہ جماعت حسنی مبارک کی آمریت کا تخت الٹ کر آئی تھی۔ ترکی اس سے رفاقت بنانا چاہتا تھا۔ لیکن اگلے سال میں ہی یہ حکومت فوجی بغاوت میں گر گئی۔ ترکی نے جنرل سیسی پر سخت تنقید کی جس نے نئی حکومت سے تعلقات خراب کر دئے۔ ترک سفیر کو مصر سے نکال دیا گیا۔ اور اگرچہ دونوں عملی ممالک ہیں اور اس سے آگے بڑھ گئے لیکن دونوں کے تعلقات واپس پہلے جیسی حالت پر نہیں آ سکے۔
جنرل سیسی اور اردگان دونوں ہی نیشنلسٹ ہیں جو ملک کے ماضی کا رومانوی نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ اور یہ تعلقات کے لئے مسئلہ ہے۔ یہ اس وقت زیادہ ہو گئے جب لیبیا میں مصر اور ترکی نے مخالف دھڑوں کی حمایت کی اور آپس میں مقابلے پر آ گئے۔
سیریا کے خانہ جنگی میں ترکی نے پرو ترک گروپ کی حمایت کی جبکہ مصر نے بشارالاسد کی حکومت کی۔ جب ترکی نے شمالی سیریا پر 2016 میں اور پھر 2018 اور 2019 میں فوج کشی کی تو مصر اس کی مخالفت میں تھا۔
ترکی کے نقطہ نظر سے یہ فوج کشی اس لئے ضروری تھی تا کہ کرد علاقے کو آزاد ریاست کے قیام سے روکا جا سکے۔ ترکی کو خطرہ تھا کہ ایسی کوئی ریاست بنی تو ہمسایہ میں ترک کرد اس سے ملنے کی کوشش کریں گے۔ ترکی کو روسی اثر بڑھنے سے بھی روکنا تھا جو اس خانہ جنگی میں سیریا کی حکومت کے حق میں کھلاڑی تھا۔ ایک اور مسئلہ یہ تھا کہ سیریا کی خانہ جنگی کی وجہ سے پینتیس لاکھ پناہ گزین ترکی آ چکے تھے۔ اور حالیہ برسوں میں ترکی میں ان مہاجرین کے خلاف جذبات میں اضافہ ہوا ہے۔ اور ترکی انہیں واپس بھیجنا چاہتا ہے۔
ترکی کو اس میں ناٹو سے شکایت تھی کہ اس نے اس فوج کشی میں ترکی کا ساتھ نہیں دیا۔ اور نہ ہی مہاجرین کے مسئلے پر مدد کی گئی ہے۔
اور یہ وجہ ہے کہ ترکی یورپی یونین اور ناٹو سے اب خاص رغبت نہیں رکھتا اور اکیلا جانے کا خواہش مند ہے۔ یورپی یونین سے اس کے تعلقات کچھ عرصے سے کشیدہ ہیں۔ مغربی لیڈر ترکیہ کو تنگ کرنے کے لئے ایک صدی پہلے آرمینیا میں ہونے والے قتلِ عام پر بات کرتے ہیں۔ اور ایسا کرنے میں فرانس، اٹلی، پولینڈ، جرمنی، کینیڈا ہیں۔ اور یہ ترکیہ کے لئے اشتعال انگیز ہے۔ اردگان کہتے ہیں کہ اس کو ترکیہ کے خلاف نفرت پیدا کرنے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اردگان کا کہنا تھا کہ “اگر ہمیں 100 سے 150 سال پہلے جا کر کسی قوم کا ماضی ٹٹولنا ہے تو پاکباز کوئی نہیں۔ جس کی بھی جیبیں جھاڑی جائیں گی اس میں بہت کچھ نکلے گا۔ آرمینیا کا پیچھا چھوڑیں اور آگے بڑھیں”۔ ترکیہ سے باہر بہت سے لوگ اس پوزیشن سے ابھی اتفاق نہیں کرتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترکیہ کے مزاج کی تبدیلی کا اضافہ اس وقت زیادہ ہو گیا جب 2016 میں ترک فوج کی چند افراد نے حکومت کا تخت الٹانے کی کوشش کی۔ اس دوران 300 ہلاکتیں ہوئیں جبکہ بغاوت ناکام رہی۔ اس کے بعد اردگان حکومت نے دسیوں ہزار لوگ جیل بھیجے۔ ملٹری، میڈیا، پولیس، سول سروس اور تعلیمی نظام کی چھانٹی کی گئی۔ جو بھی بغاوت سے ہمدردی رکھتا تھا، اس کی چھٹی ہوئی۔
(جاری ہے)

 


 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں