باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

منگل، 21 نومبر، 2023

جغرافیہ کی طاقت (54) ۔ ساحل ۔ اولیا کا شہر

 


الجیریا کی خانہ جنگ 2002 میں ختم ہوئی تھی۔ یہ ملٹری جنتا کا تخت الٹا کر تھیوکریسی لانے کی کوشش کی تحریک تھی۔ ان کا گڑھ شمالی مالی تھا۔ اور مالی کا یہ علاقہ لاقانونیت کا شکار تھا جہاں منشیات کا کاروبار اور اغوا برائے تاوان عام تھے۔ یہاں سے اس نے مالی میں جڑ پکڑی۔ اور جب لیبیا کی خانہ جنگی شروع ہوئی تو ہزاروں توارگ اس میں شریک ہوئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے مالی کو غیرمستحکم کر دیا۔ مالی پہلے ہی دنیا کے غریب ترین ممالک میں سے تھا۔ اور اس میں مرکزی حکومت کی رٹ کئی علاقوں میں کمزور تھی۔ اس کیلئے ان حملوں کی لہریں روکنے کی تیاری نہیں تھی۔ جنگجوؤں نے بڑے علاقے پر قبضہ کر لیاجس میں ٹمبکٹو بھی تھا۔ جتنے علاقے پر قبضہ کیا گیا، اس کا رقبہ فرانس سے زیادہ تھا۔
ٹمبکٹو کو 333 صوفیا کا شہر کہا جاتا ہے۔ یہاں پر زائرین آتے تھے۔ ثقافتی ورثہ تھا۔ نئے قابضین اپنے ساتھ نئے قاعدے قانون لے کر آئے جو یہاں کے لئے اجنبی تھے۔ خواتین کو ڈھانک دیا گیا اور نہ کرنے پر کوڑے مارے جاتے۔ سگریٹ نوشی ممنوع ہوئی۔ موسیقی کے آلات توڑ دیے گئے۔ قدیم ورثہ تلف کر دیا گیا۔ یہاں تک کہ پندرہ صدی کی مسجد جامع سیدی یحییٰ کا دروازہ توڑ دیا گیا کہ یہاں سے منسوب کہانی غیراسلامی ہے۔
دارالحکومت بماکو یہاں سے ایک ہزار کلومیٹر جنوب میں تھا۔ حکومت نے ثقافتی ورثے کے روندے جانے پر مذمت کی لیکن اس سے زیادہ نہیں کر سکتی تھی۔ مالی کی فوج اس شہر سے بھاگ چکی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسا ایک سال تک رہا۔ جنوری 2013 میں توارگ اور اتحادی گروہ نظریاتی اور عسکری طور پر اتنا آگے نکل گئے کہ سنبھال نہ سکے۔ مشورے نظرانداز کرتے ہوئے جنوب کی طرف پیش قدمی کرنے لگے۔ اور اس کے نتائج تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مقامی جنگجوؤں نے ہتھیار مقامی مسائل کی وجہ سے اٹھائے تھے۔ ان کی لڑائی پرانی تھے اور انہیں عالمی خلافت کے قیام یا دیگر سیاسی مقاصد سے خاص دلچسپی نہیں تھی۔ اور نہ ہی مالی پر قبضہ کرنے میں۔ لیکن باہر سے آنے والے گروہوں کا مقصد مقامی جنگجوؤں سے مطابقت نہیں رکھتا تھا۔
دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ جن علاقوں میں انہوں نے شریعت کا بے رحمانہ اطلاق کیا تھا، وہاں پر مقامی حمایت کھو دی تھی۔
تیسرا مسئلہ فرانس تھا۔ فرانس علاقے میں طاقتور بیرونی موجودگی رکھتا تھا۔ اور اس کو نئے قابضین سے خطرہ تھا۔ فرانس کے اپنے اندر اس دوران دہشگردی کے واقعات ہو رہے تھے اور ان میں سے کئی میں وہ لوگ ملوث تھے جن کا تعلق اس کی سابقہ کالونیوں سے تھا اور دہری شہریت رکھتے تھے۔ ان حملوں کی وجہ سے فرانس میں 300 ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ فرانس ایسے گروہوں کو آزادی سے کام کرنے دینے کے موڈ میں نہیں تھا۔ اور مالی کے دارالحکومت پر حملہ اس کے لئے سرخ لکیر تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرانس کو علم تھا کہ ساحل کی ریاستیں خطرات کا مقابلہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتیں۔ اور یہ عین ممکن تھا کہ مالی اور برکینا فاسو کی ریاستیں ڈھے جاتیں۔ اگر ایسا ہوتا تو یہ بڑی علاقائی گڑبڑ ہوتی۔ اور اس خلا میں شدت پسندی کو پروان چڑھنے کا موقع ملتا ہے۔
دوسرا یہ کہ یہاں پر ہزاروں فرنچ آباد ہیں۔ ان میں نائیجر کا علاقہ بھی ہے جہاں پر یورینیم کی کانیں فرانس کی نیوکلئیر صنعت کو ایندھن فراہم کرتی ہیں۔
فرانس کے لڑاکا طیارے حرکت میں آ گئے۔
لڑاکا طیاروں کی کارروائیوں نے شدت پسند گروہوں کو پیچھے دھکیل دیا اور پھر سپیشل فورس میدان میں آ گئیں۔ یہ مالی کی حکومت کی درخواست پر کیا گیا آپریشن سروال تھا۔
ڈھائی ہزار فرنچ فوجی اور مالی کی افواج نے جلد ہی قابضین کا قلع قمع کر دیا۔ یہ مارے گئے ار بھاگ گئے لیکن ختم نہیں ہوئے۔
مئی 2013 میں انہی سے ہمسایہ ملک نائیجر میں نیا گروپ بن گیا۔ جس کے سربراہ سابق کمانڈر مختار بالمختار تھے۔ بعد میں یہ المرابطون بنا اور علاقے میں متحرک ہو گیا۔
فرانس کے ساڑھے چار ہزار فوجی 2014 تک آ چکے تھے۔ اب آپریشن برخین کی باری تھی۔ یہ مالی کے علاوہ برکینا فاسو، چاڈ، نائیجر اور ماریطانیہ میں کیا گیا۔ ان پانچوں ممالک کی افواج اور پولیس بھی شامل تھیں۔ لیکن علاقہ بہت بڑا ہے اور یہ گروپ کمزور تو کئے گئے لیکن شکست نہیں دی جا سکی۔
ایک سال بعد تک یہ دوبارہ مالی میں قدم جما چکے تھے اور ساتھ ہمسایہ ممالک میں بھی۔ 2018 تک شمالی افریقہ اور نائیجیریا کے شدت پسندوں سے روابط قائم کر چکے تھے۔ اور خدشہ ہے کہ یہ آئیوری کوسٹ، ٹوگو، گھانا اور بینن تک پھیل سکتے ہیں۔
جنگجو براہ راست لڑائی کو ترجیح نہیں دیتے۔ مارو اور بھاگ جاؤ کے گوریلا حربے استعمال کئے جاتے ہیں۔ دھماکہ خیز مواد سے جانی اور مالی نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ اور اس وجہ سے یہ مقابلہ کرنا چیلنج رہا ہے۔
(جاری ہے)




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں