باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

منگل، 21 نومبر، 2023

جغرافیہ کی طاقت (55) ۔ ساحل ۔ بیرونی افواج

 


ساحل کے علاقے میں عسکریت پسندوں کا طریقہ مار دینے اور بھاگ جانے کا تھا۔ اس سے پیدا ہونے والی بے چینی، افراتفری اور بدامنی کی وجہ سے خلا پیدا ہوتا ہے اور یہ پیر جمانے میں مدد کرتا ہے۔
ایسا ایک واقعہ دسمبر 2019 میں ہوا جب نائیجر کیک فوجی چھاؤنی میں حملے سے 71 فوجی ہلاک ہوئے۔ جنوری 2020 میں 89 مزید اور پھر جب دنیا کرونا کے بحران سے گزر رہی تھی تو مارچ کے آخر میں چاڈ کی جھیل کے نزدیک گھات لگائی گئی۔ سات گھنٹے جاری رہنے والی جھڑپ میں چاڈ کے 92 فوجی ہلاک ہوئے۔ یہ چاڈ کی فوج پر ہونے والا سب سے بڑا حملہ تھا۔ سوال اٹھنے لگے کہ ملک کو کیسے اکٹھا رکھا جا سکے گا۔ یہ ایک کروڑ ساٹھ لاکھ کی آبادی کا ملک ہے جس میں 200 قومیتیں آباد ہیں۔ اور رقبہ برطانیہ سے زیادہ ہے۔ حکومت اگر اپنی فوج کی حفاظت نہیں کر سکتی تو لوگوں کی کیسے کرے گی۔
ملک بھر میں حملے ہوتے رہے۔ فرانس نے جنوری 2020 میں کانفرنس بلائی اور بین الاقوامی حمایت مانگی۔ ان کا کہنا تھا کہ فرانس کی طرح باقی دنیا کو یہاں پر امن کے قیام میں مدد کرنی چاہیے۔ فرانس کے چالیس فوجی بھی اس جنگ میں مارے جا چکے تھے۔
فرانس کی بات سنی ان سنی ہو گئی۔ برطانیہ عراق میں ہاتھ جلا چکا تھا۔ یورپ، اور خاص طور پر جرمنی، دنیا میں فوج بھیجنے سے ہچکچاتا ہے۔ ڈنمارک نے چند طیارے اور 70 فوجی بھیجے۔ چیک ری پبلک نے 60 فوجی بھیجے۔ اسٹونیا نے 50 فوجیوں کی پلاٹون بھیجی اور برطانیہ نے تین ہیلی کاپٹر اور چند فوجی روانہ کئے۔
اس کانفرنس میں بڑی حد تک ناکامی کے بعد میکرون نے مزید 600 فوجیوں اور 100 بکتربند گاڑیوں کا اضافہ کر دیا۔ خطے میں عسکریت پسندی جاری رہی اور بدتر ہو گئی۔
اس سے اگلے سال سویڈن نے 150 کی فوج کے ساتھ ہیلی کاپٹر جبکہ برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن نے 250 کی فوج کے ساتھ یونٹ مالی کے غیرمستحکم علاقے میں تعینات کر دئے۔
فرانس الجیریا پر زور دیتا رہا تھا کہ وہ اپنی تربیت یافتہ فوج بھی اتارے۔ الجیریا کا کہنا تھا کہ وہ بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ نہیں ڈالنا چاہتا۔ کیونکہ توارگ جس آزواد ریاست کا مطالبہ کرتے ہیں، اس کا کچھ حصہ الجیریا میں بھی آتا ہے۔   
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“ساحل اتحاد” 2017 میں قائم ہوا تھا۔ اس میں افریقی ڈویلپمنٹ بینک، ورلڈ بینک، یورپی یونین، اقوامِ متحدہ ڈویلپمنٹ پروگرام، فرانس، جرمنی، برطانیہ، اٹلی، سپین شامل ہیں۔ اور اس نے چھ ارب یورو اس علاقے کے ترقیاتی منصوبے پر خرچ کرنے کے لئے مختص کئے۔ ان کے علاوہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات علاقائی منصوبوں پر پیسہ لگا رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مقامی آبادی میں یورپیوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ اس کی ایک وجہ یہاں کی کالونیل تاریخ ہے۔ اس وجہ سے ساحل کے علاقے کی حکومتیں کو مشکل توازن قائم رکھنا ہے۔ انہیں یہ دکھانا ہے کہ کنٹرول انہی کے پاس ہے لیکن انہیں بڑی طاقتوں سے مدد بھی لینی ہے۔ اس کے علاوہ مقامی نسلی گروہوں کی طرف سے دباؤ الگ ہیں۔ مثلاً، مالی میں بمبارا اور ڈوگون قبائل نے اپنے لشکر بنا لئے تھے کیونکہ ان کے خیال میں شدت پسندوں سے مقابلہ کرنا حکومتی فورسز کے بس کی بات نہیں رہی تھی۔ لیکن ان لشکروں کی تشکیل سے نئے جھگڑے چھڑ گئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس علاقے میں فرانس اور امریکہ کی فوج سب سے زیادہ متحرک ہے۔ فرانس کا ایک مقصد یہ ہے کہ ریاستیں ناکام نہ ہوں تا کہ مہاجرین کے یورپ کی طرف ریلے کا دباؤ کم کیا جا سکے۔ جبکہ امریکہ اسے قومی سلامتی کی عینک سے دیکھتا ہے جبکہ ایک اور وجہ چین ہے۔ مغربی طاقتوں کو خوف ہے کہ اگر چین ایک بار ملوث ہو گیا تو پھر واپس نہیں جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کم آباد جگہیں ہیں اور علاقہ وسیع ہے۔ نگرانی مشکل ہے اور اس کے لئے ڈرون کا استعمال بہت زیادہ ہے۔
امریکہ نے نائیجر کے شہر آگادیز میں ڈرون کا اڈہ بنایا ہے۔ اس سے پہلے یہ برکینا فاسو کی سرحد پر فرنچ اڈے سے کام کرتے تھے۔ آگادیز میں جدید MQ9 Reaper ڈرون ہیں۔ اور یہاں سے علاقے کی نگرانی کی جاتی ہے۔
نائیجر اس میں اہم ملک ہے۔ یہ ساحل کے علاقے کے وسط میں ہے۔ اور یہاں پر ہمسائیوں کے مقابلے میں استحکام موجود ہے۔ اس کے ہمسائے میں لیبیا، نائیجیریا، برکینا فاسو، مالی، چاڈ اور الجیریا ہیں۔ یہاں سے صدیوں پرانے تجارتی راستے گزرتے ہیں۔ اب یہاں پر لاکھوں پریشان حال لوگ انسانی سمگلروں کے ہمراہ سفر کرتے ہیں۔
نائیجر مغربی افواج کا خیرمقدم کرتا ہے اور اس کی اپنی موثر فوج اور پولیس ہے۔ یہ اپنی اقلیتی اقوام کی مسئلے کو بھی سنجیدگی سے لیتا ہے۔ اور اس میں فلانی کا مسئلہ بھی ہے۔

اور فلانی کی تاریخ ساحل کے مسائل کی وجہ سمجھا سکتی ہے۔
(جاری ہے)




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں