باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعہ، 24 نومبر، 2023

جغرافیہ کی طاقت (56) ۔ ساحل ۔ فلانی

فلانی قوم کے سوا دو کروڑ لوگ ساحل کے علاقے میں ہیں۔ یہ مغربی افریقہ سے وسطی افریقی ری پبلک تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ان کی اپنی الگ ریاست نہیں۔ نائیجریا، مالی، نائیجر، برکینا فاسو، چاڈ میں زیادہ پائے جاتے ہیں اور ہر جگہ پر یہ اقلیتی گروہ ہیں۔
تاریخ میں یہ زیادہ تر خانہ بدوش گلہ بان رہے ہیں۔  اور اس وجہ سے جدید ریاستی تصور ان کے لئے سب سے زیادہ اجنبی تھا۔ ایک وقت میں فلانی سلطنت بھی رہی ہے۔ یہ 1818 سے 1862 تک قائم رہنے والی خلافت حمداللہ (Massine Empire) تھی اور فلانی اسے اپنی تاریخ کا سنہرا دور کہتے ہیں۔  
یہ سلطنت جن علاقوں پر پھیلی تھی، ان میں سے زیادہ تر مالی میں ہیں۔ اس کا دارالخلافہ حمد اللہ کا شہر تھا۔ فلانی افریقہ میں مسلمان ہونے والے ابتدائی لوگوں میں سے تھے۔ حمد اللہ میں دس ہزار کی فوج ہوا کرتی تھی اور اس کے علاوہ ہزاروں دوسرے شہروں میں تھے جن میں ٹمبکٹو جیسے شہر بھی تھے۔
اس خلافت سے پہلے، فلانی دوسری سلطنتوں کے باجگزار رہے تھے۔ اور یہ وہ تاریخ ہے جو انہیں یاد ہے۔ جبکہ دوسری طرف، جب یہ حکمران تھے تو انہوں نے کئی دوسرے قبائل کے ساتھ جو سلوک کیا تھا، وہ انہیں یاد ہے کیونکہ بہت سے غلام بنائے گئے تھے۔ اور ساحل کے موجودہ تنازعات میں سے ایک وجہ یہ پرانی تاریخ ہے جو کسی کو بھولی نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مالی میں 2012 میں جو عسکریت پسند تحریک ابھری، یہ ماسینا لبریشن فرنٹ تھا۔ اس کے راہنما احمدو کوفہ تھے۔ یہ ادھیڑ عمر تھے اور افغانستان اور پاکستان میں وقت گزارا تھا۔ جس دور میں یہ وقت گزارا تھا، اس وقت میں عسکریت پسند خیالات کو قبول کیا تھا۔ اور یہ افریقی مسلمانوں کی روایتی صوفی روایات کے لئے اجنبی تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری طرف فلانی قومی تحریک موجود تھی۔ یہ اپنے الگ وطن کی تحریک تھی جو ماسینا لبریشن فرنٹ تھی اور مالی کے سرحدی علاقوں تک محدود تھی۔ اس کا شدت پسند خیالات کے ساتھ ملاپ ہو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طریقے میں دیہاتوں پر حملہ آور ہونا، فوجی اور شہری آبادی کو مارنا، مزارات کو دھماکے سے اڑانا جیسی چیزیں شامل تھیں۔ دارالحکومت میں ریڈیسن بلو ہوٹل میں دھماکہ جس بھی اسی سلسلے کی کڑی تھی۔ ان کا جواز یہ تھا کہ اس طرح مالی کی ریاست کو گھٹنے ٹیکنے پڑیں گے اور “اسلامی ماسینا ری پبلک” قائم کی جا سکے گی۔
ریاست کی کمزوری اور معاشرے میں ناانصافی کا تاثر فلانی آبادی کیلئے تحریک میں بھرتی کا ایندھن رہا۔ حکومت کی طرف سے ناقص گورننس کے علاوہ ایک اور مسئلہ یہ تھا کہ جن علاقوں سے شدت پسند گروہوں کو نکالا گیا تھا، وہاں پر مالی کی فوج اور حکومت بحال ہوئی تو لوگوں کے لئے سکھ کا سانس لینے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ اجتماعی سزاؤں کا نظام خاص طور پر عوام کے لئے ناقابل قبول تھا۔ اور یوں، دنیا کے غریب ترین ملک کے غریب ترین علاقے میں کوفہ اور ان کی تحریک کو اپنے ارکان ڈھونڈنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔ اس تحریک کا وعدہ فوری انصاف، رشوت ستانی اور کرپشن کا خاتمہ پرکشش تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حالیہ برسوں میں یہ تنازعہ مالی کی سرحد پار کر کے ساحل کی دوسری فلانی آبادی تک پہنچ چکا ہے۔  ہر جگہ پر مسائل ویسے ہی ہیں۔ خشک سالی سے زمین کی پیداوار کم ہو رہی ہے۔ علاقے مویشیوں کے لئے غیرموزوں ہو رہے ہیں۔ خانہ بدوش لوگوں کو نئے علاقوں میں جانا پڑتا ہے۔ یہاں پر انہیں خوشدلی سے قبول نہیں کیا جاتا۔ یہ “باہر والے” سمجھے جاتے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیاں اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے شدت پسند گروہ سرحدوں کی قید سے آزاد ہیں۔
(جاری ہے)

 

 





 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں