باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعہ، 24 نومبر، 2023

جغرافیہ کی طاقت (57) ۔ ساحل ۔ موسم اور آبادی


بیسویں صدی کے دوسرے نصف سے موسمیاتی تبدیلیوں میں انسانی ہاتھ کا اضافہ زیادہ ہے۔ بڑھتی آبادی ایندھن کے لئے درخت کاٹتی ہے۔ مویشیوں کو گھاس چرنے کے لئے زیادہ جگہ درکار ہوتی ہے۔ اس کا مطلب مٹی کا بہہ جانا اور صحرا کا بڑھ جانا ہے۔ جب بالائی مٹی کی تہہ ہٹتی ہے تو بنجر زمین بڑھ جاتی ہے۔ ہوا اس کو لے اڑتی ہے۔ گرد آلود آندھیاں بنتی ہیں۔ اور مٹی کی کمی کی وجہ سے فصلوں کی پیداوار بڑے پیمانے پر نہیں ہو سکتی۔
اور اس میں خشک سالی تباہ کن ہوتی ہے۔ 1968 میں یہاں آنے والی خشک سالی نے بڑے علاقے پر فصلیں ناکام کر دی تھیں۔ 1972 میں کوئی بارش نہیں ہوئی اور اگلے ایک سال میں اس کی وجہ سے ایک لاکھ ہلاکتیں ہوئیں اور بڑی تعداد میں مویشی مرے۔ صحارا ایک سو کلومیٹر آگے بڑھ آیا۔ 1980 کی دہائی کے وسط میں ایک اور خشک سالی آئی۔ اور پھر قحط اور پھر صحرا۔
چاڈ کی جھیل بھی اس کا شکار ہے۔ چالیس سال میں اس میں نوے فیصد کمی ہوئی۔ مچھلیاں اور روزگار چلے گئے۔ اور جو ممالک اس کے پانی پر منحصر تھے، ان کے لئے مشکل ہے۔ علاقے میں تین کروڑ لوگ بھوک کے خطرے میں ہیں۔
اور یہ ایسا علاقہ ہے جہاں پر قومی پیداوار کا چالیس فیصد زراعت سے آتا ہے۔ لیکن  اندازہ ہے کہ اسی فیصد زمین میں زرخیزی میں کمی ہوئی ہے۔
اور اس کے لئے کچھ کئے جانا ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس علاقے کے سترہ ممالک اگلے دس سال میں  موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے چار کھرب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔ لیکن اس کا زیادہ تر حصہ بیرونی امداد پر مشتمل ہو گا اور عالمی کساد بازاری کا مطلب یہ ہے کہ اس کا پتا نہیں کہ کتنے پیسے واقعی میں آ سکیں گے۔
شجرکاری کے بڑے آپریشن کئے جا رہے ہیں۔ یہ “عظیم سبز دیوار” کا منصوبہ ہے جو 2007 میں شروع ہوا تھا۔ اس کا مقصد 8000 کلومیٹر لمبی اور 16 کلومیٹر چوڑی درختوں کی دیوار بنانا ہے جو کہ ساحل اور صحارا کے درمیان ہو اور صحرا کی پیشقدمی روک سکے۔ اس نے مغرب میں سینیگال سے لے کر مشرق میں جبوتی تک جانا ہے۔
اس میں شروع میں ہی مشکلات پیش آ گئیں۔ فنڈ پورے نہیں ملے۔ اور دوسرا یہ کہ یہ غیرآباد علاقے میں بننی تھی تو نوخیز پودوں کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ زیادہ تر درخت مر گئے۔ لیکن پراجیکٹ جاری رہا۔ زیادہ بڑا مسئلہ یہ نہیں تھا کہ صحرا بڑھ رہا تھا بلکہ ساحل کے اپنے اندر کی زمین کو ٹھیک طرح سے manage نہیں کیا جا رہا تھا۔
عظیم سبز دیوار کا یہ آئیڈیا تبدیل ہوتا رہا اور اب اس کا مقصد پورے علاقے کو سرسبز کرنا ہے۔ اس میں کسی حد تک کامیابی ہوئی۔ پانی کے استعمال کے سستے اور موثر طریقے وضع کئے گئے۔ گھاس بڑھے اور نئے لگائے گئے پودوں کی دیکھ بھال کی جائے۔
لیکن ایک اور مسئلہ تھا۔ خانہ بدوشوں کے جانوروں کے ریوڑ خوراک کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے اور یہ ہمیشہ ان کے بڑے ہونے کا انتظار نہیں کر سکتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقت کسی کے ساتھ نہیں۔ آبادی کے بڑھنے کی رفتار میں میں افریقہ سب سے آگے ہے۔ توقع ہے کہ 2050 تک اس کی آبادی دگنا ہو جائے گی۔ اور ساحل میں بھی ایسا ہی ہے۔ کچھ علاقوں میں یہ دوسروں سے زیادہ ہو گا۔ مثلا، نائیجر کی آبادی اس وقت دو کروڑ تیس لاکھ ہے۔ خیال ہے کہ یہ 2050 میں بڑھ کر ساڑھے چھ کروڑ پہنچ سکتی ہے۔
آبادی میں اضافے کے اس مسئلے کو کم کرنے میں تعلیم کردار ادا کر سکتی ہے لیکن یہ مہنگا کام ہے اور یہاں پر لڑکوں کی تعلیم کو لڑکیوں پر زیادہ فوقیت دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ صحت اور خاندانی منصوبہ بندی کے لئے بھی حکومتی فنڈ محدود ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موسم اور آبادی کے یہ مسائل علاقے کی غربت کی اہم وجہ ہیں۔ اور یہاں کے سیاسی عدم استحکام اور عسکریت پسندی میں بھی کردار ادا کرتے ہیں۔
(جاری ہے)

 


 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں