باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

اتوار، 26 نومبر، 2023

جغرافیہ کی طاقت (58) ۔ ساحل ۔ قدرتی وسائل

 

ساحل دنیا کا غریب ترین علاقہ ہے لیکن قدرتی وسائل کے اعتبار سے یہ امیر ہے۔ نائیجر میں یورینیم، تیل اور فاسفیٹ ہیں۔ ماریطانیہ میں لوہا اور تانبہ ہے۔ چاڈ میں یورینیم اور تیل ہے۔ برکینا فاسو اور مالی میں سونا ہے۔ گورننس، کرپشن اور شفافیت کے مسائل ہیں۔ معاشی اور صنعتی نظام کے مسائل ہیں۔ اپنے خام مال کو پراسس کرنے کیلئے بیرونی سرمایہ کاری چاہیے ہوتی ہے۔ اس کیلئے ملٹی نیشل کمپنیوں کو اپنے ملک کی طرف کرنا ہوتا ہے۔ اس کے لئے انہیں ٹیکس میں چھوٹ دینا ہوتی ہے۔ اور چونکہ حکومت کا انحصار اسی ٹیکس پر ہوتا ہے تو یہ ایک اور مسئلہ ہے۔
نائیجر میں یورینیم کے دنیا کے چوتھے بڑے ذخائر ہیں۔ اور اس کی حکومت اس کے لئے فرانس کی سرکاری کمپنی اریوا پر منحصر ہے۔ اس کے پاس آرلت کے شہر کے قریب دو کانیں ہیں۔ نائیجر کی حکومت اور اریوا کے درمیان معاہدے پر جب مختلف تنظیموں نے سوال کئے کہ انہیں کسٹمز اور ٹیکس پر سہولتیں کیوں ہیں تو اس کے جواب میں نائیجر کی حکومت نے 2014 میں معاہدہ تبدیل کرنے کے لئے اریوا پر دباؤ ڈالا۔ اریوا نے کہا کہ نئی شرائط پر کام کرنے کا مطلب یہ ہو گا کہ یہ بزنس منافع بخش نہیں رہے گا۔ اور انہوں نے یورینیم نکالنا بند کر دیا۔ تکرار کے بعد دوبارہ معاہدہ ہوا اور کام شروع ہوا۔
معدنیات نکالنے سے آبادی کو روزگار ملتا ہے اور مسائل بھی۔ یہ آگادیز کا علاقہ ہے جہاں پر اس کاروبار پر ریگولیشن کمزور ہونے کے سبب ماحولیاتی مسائل ہیں۔
آرلٹ سوا لاکھ کی آبادی کا غریب شہر ہے۔ کچے مکان اور ناکافی پانی۔ اس کے قریب یہ کانیں روز کا دس لاکھ لٹر پانی لے لیتی ہیں۔ آندھیاں اپنے ساتھ کانوں سے ذرات بھی اڑا لاتی ہیں جو محفوظ حد سے زیادہ ہیں۔ یہ صنعت آرلت کے لوگوں کو روزگار دیتی ہے۔ شہر میں اریوا کے بنائے گئے ہسپتال ہیں جہاں پر ہر ایک کو مفت علاج ملتا ہے خواہ وہ کمپنی کا ملازم ہو یا نہیں ہو۔
یہ علاقے کے لئے مشکل تعلق ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برکینا فاسو میں 2009 میں سونا سب سے بڑی برآمد بن گیا تھا۔ یہ ملک سونے کی پیداوار کا چوتھا سب سے بڑا ملک ہے۔ اور یہ صنعت عسکریت پسندوں کی توجہ بھی لیتی ہے۔
کئی غیرقانونی کانیں ہیں۔ حکومت انہیں بند کرنے کی کوشش کرتی ہے لیکن غریب ملک میں یہ پرکشش کاروبار ہے۔ کئی غیرلائسنس شدہ کانیں ان علاقوں میں ہیں جنہیں ہاتھیوں کیلئے محفوظ علاقہ بنایا گیا تھا۔ لیکن مرکزی حکومت کمزور ہے اور علاقہ بڑا۔ ایسی دو ہزار کانیں اس وقت کام کر رہی ہیں۔
کان میں کام کرنے والے مجرموں کے لئے آسان نشانہ ہیں۔ اغوا اور ڈکیتی کا نشانہ بنتے ہیں۔ کئی جگہ پر عسکریت پسند کان کو ہی اپنے قبضے میں لے لیتے ہیں۔ پاما کے علاقے میں اچانک جیپوں اور پک اپ ٹرکوں پر سوار عسکریت پسند کان میں آ کر اعلان کرتے تھے کہ اب یہ ان کی ہے۔ کام جاری رہے گا لیکن ان کا اس میں حصہ ہو گا۔
ایسی سینکڑوں مثالیں ہیں۔ عسکریت پسند ان کانوں سے جو بھتہ وصول کرتے ہیں، یہ کروڑوں ڈالر کا ہے۔ اس سے بہت سے ہتھیار خریدے جا سکتے ہیں اور نئے ریکروٹ بھرتی کئے جا سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عالمی منڈی میں سونے کی قیمت چڑھنے سے اس کاروبار میں بھی تیزی آتی ہے۔ پچھلے دس سال میں برکینا فاسو، مالی اور نائیجر میں قانونی اور غیرقانونی کانکنی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔اندازے کے مطابق برکینا فاسو میں دس لاکھ، مالی میں ساتھ لاکھ اور نائیجر میں تین لاکھ افراد براہ راست سونے کی کان کنی سے روزگار حاصل کرتے ہیں جبکہ اس سے تین گنا افراد بالواسطہ طور پر۔
اگر ملک میں استحکام ہو تو حکومت معدنیات کی صنعت سے کما سکتی ہے۔ بزنس میں اضافہ ہو تو ملک کی خوشحالی میں بھی لیکن یہاں پر ایسا نہیں۔ یہاں پر کئی قسم کے مسائل ہیں۔ نہ صرف یہ کہ غیرقانونی صنعت ان کی پہنچ سے باہر ہے بلکہ دوسرا یہ کہ حکومت کا نظام سرکاری اہلکاروں سے چلتا ہے اور کرپٹ اہلکاروں کی مدد سے سونا سرحدوں سے باہر جاتا رہتا ہے۔ تیسرا یہ کہ اگر غیرقانونی بزنس چلتا رہے اور ریاست کو چیلنج نہ کرے، تب بھی خیر رہے لیکن یہاں پر جو تیسرا اور زیادہ بڑا مسئلہ یہ ہے کہ آمدنی زیادہ ہونے کا مطلب یہ کہ یہ ریاست مخالف گروہ مزید مضبوط ہوتے ہیں اور حکومتی رٹ مزید کمزور پڑتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کے علاوہ افریقہ میں موجود ایک اور ریسورس نایاب زمین کی دھاتیں (rare earth materials) ہیں۔
(جاری ہے)

 



 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں