باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

منگل، 28 نومبر، 2023

جغرافیہ کی طاقت (62) ۔ ایتھوپیا ۔ ملکہ سبا سے عثمانیوں تک

 


اگرچہ ایتھوپیا علاقائی طاقت ہے لیکن اسے کئی طرح کے مسائل کا سامنا ہے۔ یہ توانائی اور خوراک میں خودکفیل ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ زراعت اس کے جی ڈی پی کا نصف ہے۔ لیکن وقتا فوقتا آنے والی خشک سالی، جنگلات کا کٹنا، زیادہ چرائی کی وجہ سے گھاس کے میدان اجڑ جانا، فوجی آمریت اور ناقص انفراسٹرکچر اس کے بڑے مسائل ہیں۔ 1984 میں یہاں بڑا قحط آیا تھا جو دکھاتا ہے کہ یہاں معاملات کس قدر خراب ہو سکتے ہیں۔ اور کئی لوگوں کے ذہن میں اسی وجہ سے اب تک اس کی حیثیت قحط زدہ ملک کی ہے۔ یہاں وافر پانی، زرخیز زمین اور جانوروں کی بہتاتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود لاکھوں لوگوں کو امداد کے سہارے رہنا پڑتا ہے۔
لیکن چیزیں بدل رہی ہیں۔ پانی کے بہاؤ کو بجلی میں بدلا جا رہا ہے، ڈیم اور پاور سٹیشن بن رہے ہیں۔ نیل، آواش، اومو، شبیل اور دوسرے دریاؤں پر بند باندھے جا رہے ہیں۔ توقع ہے کہ اس طرح سے ملک اپنی توانائی کی ضروریات کو نہ صرف پورا کر لے گا بلکہ ہمسائیوں کو فروخت بھی کر سکے گا۔ اور اس کا مطلب یہ ہو گا کہ دیہی آبادی کو لکڑیاں اور کوئلہ جلانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اس کی وجہ سے جنگلات بچائے جا سکیں گے اور مٹی کا کٹاؤ روکا جا سکے گا۔
ٹیکنالوجی ملک کی دولت کی زیادہ منصفانہ تقسیم کو بھی ممکن کر سکتی ہے اور یہاں کے علاقوں کے درمیان وسائل کی کھینچا تانی کو بھی کم کر سکتی ہے۔ افریقہ کے کئی ممالک میں قومی اور نسلی بنیاد پر پرانے تنازعات ہیں۔ ایتھوپیا کبھی یورپی کالونی نہیں بنا۔ ان کی اپنی سلطنت تھی لیکن اس کی سرحدوں میں بھی ایسے جھگڑے ہیں۔ یہاں پر نو بڑے قومیتی گروہ رہتے ہیں۔ نو انتظامی علاقے اور دو خودمختار شہر ہیں۔ ان کی بنیاد قومیت پر ہے۔ 80 سے زائد زبانیں بولی جاتی ہیں جو چار بڑے گروپ میں آتی ہیں۔ اور سب کو سرکاری ریاستی زبان کی حیثیت حاصل ہے۔ ارومو سب سے بڑا گروپ ہیں جو آبادی کا ایک تہائی ہیں۔ اس کے بعد امہارا ہیں جو آبادی کا ستائیس فیصد ہیں۔ پھر صومالی اور ٹائگرے ہیں۔ دونوں چھ فیصد ہیں۔
سرکاری امور میں استعمال ہونے والی زبان امہاری ہے۔ لیکن ایک مسئلہ یہ ہے کہ جو لوگ سرحد کے قریب کے علاقوں میں بستے ہیں، ان میں اپنے ہمسائیوں سے زیادہ چیزیں مشترک ہیں۔ مثلا، چھ فیصد آبادی صومالی ہے جو مشرقی انتظامی علاقے میں ہے جس کا نام صومالی ریاست ہے۔ ان کے لئے سرحد پار لوگوں سے مشترک چیزیں باقی ایتھوپیا کی آبادی کے مقابلے میں زیادہ ہیں۔ اس قسم کا قومیتی تنوع ہے جو کہ حکومت کی قومی یکجہتی بنانے کی کوششوں میں رکاوٹ رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قومی یکجہتی پیدا کرنے، قومی شناخت اور مشترک وراثت کا تصور بنانے کیلئے ہر ملک کے پاس کچھ کہانیاں ہوتی ہیں ہے۔  ایتھیوپیا کے لئے یہ ملکہ سبا اور حضرت سلمان کی ہے۔ اسلامی روایت میں انہیں ملکہ بلقیس جبکہ ایتھوپیائی روایات میں ان کا نام ماکیدا ہے۔ ایتھوپیا کے ملک کی کہانی میں انہیں قوم کی ماں جیسی حیثیت حاصل ہے۔
چودہویں صدی میں ایتھوپیا کیبرا ناگاست (بادشاہوں کی شان) لکھی گئی تھی جس میں لکھا ہے کہ ملکہ حضرت سلمان کی دانائی سے متاثر ہو کر انہیں ملنے گئی تھیں۔ ان کا بیٹا ہوا تھا جس کا نام مینالک رکھا گیا تھا اور یہ ایتھوپیا کے سلمانی شاہی خاندان کے بانی تھے۔
ہمیں اس کی سچائی کا علم تو نہیں لیکن پھر بھی مینالک سے لے کر 1970 کی دہائی کے بادشاہ ہیل سلاسی تک تمام بادشاہ خود کو ان کی اولاد میں سے کہتے رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریاست کے طور پر اس کی کہانی 200 قبل مسیح سے شروع ہوتی ہے۔ جب ٹائگرے کی بلند سطح مرتفع پر شہری بادشاہت بنے تھی۔ یہ اپنے دارالحکومت اکسوم کے گرد  ہر سمت پھیلنے لگی۔ اور سن 100 عیسوی تک یہ بحیرہ احمر میں تجارت کرنے والی فورس تھی۔ دوسری صدی سے سن 940 تک مملکت اکسوم کا دور تھا جس کے پاس جنوبی مصر سے لے کر بحیرہ روم کے پار یمن کا علاقہ تھا۔ اس کی بحریہ اور فوج اتنی مضبوط تھی کہ زمینی اور سمندری تجارتی راستوں کی حفاظت کر سکتی تھی۔
مسیحیت یہاں پر چوتھی صدی کے آغاز میں آئی اور پھیل گئی۔ 451 میں ایتھوپیا نے مصر کی قبطی چرچ کی روایات کی پیروی شروع کر دی۔ روم اور قسطنطیہ سے تعلق توڑ لیا۔ یہ بیسویں صدی کے وسط میں بحال ہوئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام کے ساتھ اس علاقے کا تعلق بھی قدیم ہے۔ اسلام کے ابتدائی برسوں میں رسول کریم نے 615 میں کچھ صحابہ کو ایتھوپیا کے بادشاہ کی طرف ہجرت کے لئے بھیجا تھا۔  اسلامی کمیونیٹی ملک کے کناروں پر آباد ہوئی۔ بحیرہ احمر کے تجارتی راستوں سے یہ پھیلی۔ تیرہویں صدی میں مسلمان آبادی اندرونی حصوں تک پھیل چکی تھی۔ یہاں پر مسیحی مسلمان جنگیں رہیں۔ پھر سولہویں صدی میں عثمانی وسطی پہاڑوں تک پہنچے۔ ان کے دوسری طرف پرتگالی آئے اور انہیں پیچھے دھکیل دیا۔
اس وقت ایک تہائی ایتھوپین مسلمان ہیں۔ اور ان میں سے اکثریت ملک کے سرحدی علاقوں میں ہے۔ خاص طور پر مشرقی نشیب میں۔ مسیحی مسلمان تعلقات عام طور پر پرامن رہے ہیں۔ مسلمان آبادی میں پرانی صوفی روایات کا غلبہ ہے۔ اگرچہ حال میں مشرق کی طرف سے انتہاپسند گروہوں کا کچھ اثر پہنچا ہے۔
(جاری ہے)




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں