باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

بدھ، 29 نومبر، 2023

جغرافیہ کی طاقت (63) ۔ ایتھوپیا ۔ بادشاہ ہیلہ سلاسی

 


جدید ایتھوپیا 1855 میں سامنے آیا جب بادشاہ تیوڈرس دوئم نے طاقت کے زور پر کئی بادشاہتوں کو اکٹھا کیا۔ اور پھر اپنے ملک کو جدید بنانے کی کوشش کی۔ فوج کی تنظیم نو ہوئی، جدید ہتھیار خریدے گئے۔ یورپ سے ہنرمند معیشت اور تجارت بحال کرنے کے لئے نئی ٹیکنالوجی لے کر آئے۔ ملک نے دو فوجوں کو شکست دی۔ پہلے مصری فوج کو دو بار ایتھوپیا مصر کی جنگوں میں جو کہ 1874 سے 1876 تک جاری رہیں۔ اور پھر اطالوی فوج کو 1896 میں جس میں چھ ہزار اطالوی مارے گئے۔ اطالوی کالونیل قبضہ ور ایریٹریا سے آگے نہیں آ سکے۔
ملک کا دارالحکومت ادیس ابابا لے جایا گیا اور ملک میں نسبتا سکون رہا۔ ملک اس سائز تک پھیل گیا جس تک آج ہے۔ بیسویں صدی کے آغاز میں انفراسٹرکچر بنانے کی کوشش شروع ہوئی۔ ملک کے دریاؤں پر پل بنانے اور ریلوے کی پٹری بچھانے کا کام ہوا۔ ادیس ابابا کو جبوتی کی بندرگاہ سے منسلک کیا گیا۔ لیکن ملک سخت غربت کا شکار تھا۔ دارالحکومت کی آبادی 1920 کی دہائی میں ایک لاکھ سے زائد تھی اور یورپی کالونیوں کے درمیان یہ آزاد ملک تھا۔
راس تفاری 1930 میں شہنشاہ ہیلہ سلاسی اول ہو گئے۔ ساتھ ہی ساتھ ہی ایتھوپیا کی فوج کے فیلڈ مارشل، فضائیہ کے ائیر مارشل، بحریہ کے ایڈمرل بھی تھے۔ اس کے علاوہ بھی ان کے بہت سے عہدے تھے لیکن یہ ملک کے لئے اہم پیشرفت تھی۔ اگرچہ یہ جسمامت میں پستہ قد تھے لیکن افریقہ کی سیاست میں قدآور شخصیت تھے۔ اور انہیں ایتھوپیا کے جغرافیہ اور تاریخ سے فائدہ اٹھانا آتا تھا۔ انہوں نے معیشت کو جدید بنیادوں پر استوار کیا۔ بیرونی کمپینوں کی مقامی کمپینوں کے ساتھ شراکت کروائی۔ سفارتی طور پر کامیابی ایتھوپیا کی لیگ آف نیشنز میں شمولیت تھی۔ اس میں داخلے کی ایک شرط غلامی کا خاتمہ تھا جو کہ ایتھوپیا میں ابھی باقی تھی۔ اور اندازہ ہے کہ 1930 کی دہائی میں ایتھوپیا میں بیس لاکھ کے قریب غلام ابھی موجود تھے۔
ایتھوپیا کی آزادی اور معاشی ترقی کی وجہ سے یہ دوبارہ اٹلی کی نظر میں آ گیا۔ اور اس نے غلامی کو پراپیگنڈہ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا تاکہ جنگ کو جواز دیا جا سکے۔ یہ افریقہ کا وہ حصہ تھا جہاں پر مسولینی اپنی سلطنت بنا سکتے تھے اور اس کے لئے فرانس یا برطانیہ سے ٹکر نہیں لینی تھی۔ اکتوبر 1935 میں اٹلی کی افواج یہاں چڑھ دوڑیں۔ اور اگلے سال مئی میں یہ ادیس ابابا کو قبضے میں لے چکی تھیں۔ بادشاہ فرار ہر کر برطانیہ جا چکے تھے۔ مسولینی کے جنرلوں نے اپنی مخالفین کو دنیا کے سامنے “وحشی” کے طور پر پیش کیا۔ اگرچہ اس جنگ میں صرف ایک ہی سائیڈ تھی جس نے اپنے مخالفین پر زہریلی گیس کا استعمال کیا تھا اور یہ ایتھوپین نہیں تھے۔
اگرچہ ایتھوپیا جنگ ہار گیا تھا لیکن مزاحمت جاری رہی۔ برطانیہ نے مقامی مدد کے ساتھ 1941 میں اٹلی کی فوج کو شکست دی اور ہیلہ سلاسی واپس تخت نشین ہو گئے۔
ہیلہ سلاسی نے امریکی صدر روزویلٹ کو 1945 میں قائل کیا کہ ایریٹریا، جو کہ اب اٹلی کے قبضے سے آزاد تھا، آزاد ملک کے طور پر نہیں رہ سکتا۔ اور اسے ایتھوپیا کا حصہ بن جانا چاہیے۔ ان کا مقصد سمندر کے پانیوں تک رسائی یقینی بنانا تھا۔ 1952 میں اقوام متحدہ نے اس کی منظوری دی۔ اور اس میں کوئی تعجب نہیں تھا کہ ساتھ ہی امریکہ کو اسمارا میں فوجی اڈہ مل گیا اور بحریہ کے لئے بیس مل گئی تا کہ سرد جنگ میں اس خطے میں سوویت یونین کا مقابلہ کیا جا سکے۔ امریکہ نے انفراسٹرکچر اور عسکری امداد پر بھاری خرچ کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہیلہ سلاسی ایسے افریقی ملک کے سربراہ تھے جسے کبھی کالونی نہیں بنایا گیا تھا اور اس وجہ سے ان کا براعظم پر بڑا اثر تھا۔ اور جب افریقی اتحاد کی تنظیم 1963 میں قائم ہوئی تو یہ اس کے روح رواں تھے۔ اس کا ہیڈکوارٹر ادیس ابابا میں ہی بنا۔ یہ تنظیم بعد میں افریقی یونین بن گئی اور اس کا ہیڈکوارٹر یہاں پر ہی ہے۔
اگرچہ اس کی تاریخ اسے کالونیل ازم کے خلاف مزاحمت کی علامت بناتی ہے لیکن ایتھوپیا غریب، غیرترقی یافتہ اور منقسم ریاست رہی ہے۔
ہیلہ سلاسی کا تخت  1960 میں الٹانے کی کوشش ہوئی جس میں وہ بچ گئے۔ لیکن اس کے بعد ان کی حکومت میں جبر بڑھ گیا اور نسلی کشیدگی کا مسئلہ بگڑ گیا۔ صومالیہ نے برطانیہ سے آزادی لی تھی۔  ایتھوپیا میں صومالیہ اوگاڈن کا علاقہ مرکزی حکومت سے باغی ہو گیا۔ صومالیہ اس کی مدد کو آیا لیکن ایتھوپیا کی فوج نے جلد ہی اپنے ہمسائے اور اندرونی علیحدگی پسندوں کو شکست دی دی۔ اس کا ایک نتیجہ یہ ہوا کہ صومالیہ سوویت کیمپ میں چلا گیا اور دونوں ممالک سرد جنگ کے تھیٹر کا حصہ بن گئے۔ بڑی طاقتوں کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کرنے لگے اور بڑی طاقتیں انہیں اپنے مفاد کے لئے استعمال کرنے لگیں۔
اسی اثنا میں ایریٹریا میں بھی بغاوت اٹھ کھڑی ہوئی۔ یہ ایتھوپیا کا حصہ تھا۔ بغاوت کی وجہ امہاری زبان کو ذریعہ تعلیم بنانا تھا۔ اور یہ جلد ہی قومی آزادی کی تحریک میں بدل گئی۔
ستمبر 1974 کو ملک میں فوجی بغاوت ہوئی۔ یہ کرنے والوں میں فوج پولیس اور سپیشل فورسز شامل تھیں۔ ان کی قیادت میجر مینگیستو ہائل مریم کر رہے تھے۔ سب سے پہلے انہوں نے شاہی محل پر قبضہ کیا۔ یہاں پر 82 سالہ بادشاہ تھے جو کنفیوژن کی حالت میں تھے۔ انہیں فوکس ویگن گاڑی کی پچھلی سیٹ پر ڈالا گیا تو وہ فوجیوں پر چِلا رہے تھے۔ جب انہیں سڑکوں سے لے جایا جا رہا تھا تو ہجوم ان کے خلاف نعرے لگا رہا تھا۔
ایک سال بعد ان کا انتقال ہو گیا۔ کئی سالوں تک یہ افواہیں چلتی رہیں کہ انہیں گلا گھونٹ کر مارا گیا ہے۔ (2006 میں جب اس فوجی کمیٹی کے خلاف کیس چل رہا تھا تو اس میں ایک بادشاہ کے قتل کا بھی تھا)۔ اس کمیٹی کی حکومت 1991 میں ختم ہوئی تو بادشاہ کی لاش ٹوائلٹ کے نیچے کھڑی حالت میں دفن کی گئی ملی۔ جس کو بعد میں مسیحی کیتھڈرل کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔
(جاری ہے)

 


 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں