باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعرات، 30 نومبر، 2023

جغرافیہ کی طاقت (68) ۔ ایتھوپیا ۔ نیل پر جنگ

 


جب نیل ارزق (Blue Nile) سوڈان کے دارالحکومت خرطوم پہنچتا ہے تو یہ نیل ایبض (White Nile) کے ساتھ مل کر دریائے  نیل بنتا ہے۔ یہ یہاں سے بہتا ہوا مصر جاتا ہے۔ ایتھوپیا یہاں پر افریقہ کا سب سے بڑا ڈیم تعمیر کر رہا ہے۔ یہ ڈیم اور اس کا پانی کا ذخیرہ سوڈان کی سرحد سے چند کلومیٹر دور ہیں۔ یہ ذخیرہ بھر رہا ہے اور جب چند سال میں بھر جائے گا تو یہ 250 کلومیٹر طویل ہو گا جو ایتھوپیا کے پہاڑوں تک پہنچے گا۔ اس کی تعمیر 2011 میں شروع ہوئی تھی۔ 2020 کے موسم گرما میں سیٹلائیٹ کی تصاویر نے دکھایا کہ اس میں پانی کی سطح آہستہ آہستہ اوپر جا رہی ہے۔ اس وقت تک مصر اور ایتھوپیا کے درمیان کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا لیکن ایتھوپیا بارشوں کا پانی روک کر اسے اس سطح پر لا رہا تھا کہ ٹربائن چلا کر بجلی کی پیداوار ٹیسٹ کیا جا سکے۔
مصر کیلئے یہ ڈیم ان کے وجود کا معاملہ ہے۔ اور یہ کسی ملک کے لئے جغرافیے کی قید کی بہت واضح مثال ہے۔ نیل کا دریا مصر کی روح رواں ہے۔ نیل نہ ہو تو مصر نہیں ہو گا۔ مصر میں پانی کا پچاسی فیصد حصہ ایتھوپیا سے آنے والے نیل ارزق سے آتا ہے۔ اور اب ایتھوپیا کے پاس اس نلکے کا کنٹرول ہے۔ ایسا نہیں کہ ایتھوپیا اسے کاٹ دینے کا ارادہ رکھتا ہے لیکن یہ کہ ان کے پاس ایسا کرنے کی صلاحیت ہو گی۔
یہ وجہ ہے کہ دونوں اطراف میں اس بارے میں جذبات گرم ہیں۔ مصر زیادہ تر صحرا ہے اور اس کی ساڑھے دس کروڑ آبادی کا پچاسی فیصد دریا کے کناروں اور ڈیلٹا پر رہتا ہے۔ مصر کو خوف ہے کہ اگر پانی میں اگلے پانچ سال میں دس فیصد کمی بھی ہو گئی تو پچاس لاکھ کسان بے روزگار ہو جائیں گے۔ اس کی زرعی پیداوار نصف ہو جائے گی اور ملک عدم استحکام کا شکار ہو جائے گا۔
نیل کے نارمل بہاؤ میں بھی مصر کو مسائل ہیں۔ بحیرہ روم سے نمکین پانی ڈیلٹا میں داخل ہو رہا ہے۔ اور یہ زمین کو خراب کر رہا ہے۔
کالونیل دور میں مصر اور برطانیہ کے 1929 میں پانی پر معاہدے ہوئے تھے جس میں مصر کے لئے سالانہ پانی کا کوٹا مختص ہوا تھا اور اسے اختیار دیا گیا تھی کہ یہ کسی بھی دوسرے ملک کے ڈیم کو ویٹو کر سکے گا۔ مصر کا نکتہ نظر اسی بنیاد پر ہے۔
ایتھوپیا اسے اس نظر سے نہیں دیکھتا۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ کسی ایسے معاہدے پر عمل کرنے کا پابند نہیں جس پر اس نے دستخط ہی نہیں کئے۔ ڈیم کا یہ پراجیکٹ عرصے سے قومی فخر کا مسئلہ بھی ہے اور ایتھوپیا کے مستقبل کا بھی۔ ڈیم اس قدر توانائی بنا سکتا ہے کہ یہ سوڈان کو فروخت کی جا سکے گی۔ اور دوسرا فائدہ یہ ہے کہ ایتھوپیا میں بارشوں کے نہ ہونے کی وجہ سے غذائی قلت پیدا ہو جاتی ہے۔ پانی کا ذخیرہ اس کا تدارک کرے گا۔ ایتھوپیا کو مصر کی پرواہ نہیں۔ وہ مصر کو کالونیل پاور کے طور پر دیکھتے ہیں جس نے غلاموں کی تجارت میں کردار ادا کیا تھا۔ ان پر حملہ کیا تھا اور اب انہیں غربت سے نکلنے میں رکاوٹ ڈال رہا ہے۔
مصر کے صدر سیسی کا کہنا ہے کہ وہ مصر کے مفاد کی حفاظت کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ اور اس وجہ سے تجزیہ نگار یہ خطرہ محسوس کرتے ہیں کہ یہاں جنگ ہو سکتی ہے۔ اور یہ نیا مسئلہ نہیں۔ ایتھوپیا کی حکومت نے سب سے پہلے 1970 میں یہاں پر ڈیم کی سٹڈی کے لئے امریکہ سے رابطہ کیا تھا اور اس وقت کے مصری صدر انوار سادات نے ایتھوپیا کو سنگین نتائج کی دھمکی دی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر نوبت جنگ تک آ گئی تو اس میں کئی چیزیں ایتھوپیا کی مدد کرتی ہیں۔ چونکہ ایتھوپیا زمین بند ہے تو اس تک پہنچنے کا راستہ سوڈان کے ذریعے ہو گا یا پھر سمندر میں ایریٹریا کو پار کر کے۔ کسی حملہ آور فوج کے لئے یہ اچھے راستے نہیں۔ مصر کی عسکری تاریخ مثبت نہیں۔ اس نے 1874 سے 1876 تک ایتھوپیا پر حملہ کیا تھا اور ناکامی کا سامنا ہوا تھا۔ 1960 میں ستر ہزار مصری فوجی یمن کی خانہ جنگی میں لڑنے گئے تھے۔ ساٹھ ہزار واپس آئے تھے۔
فضائی حملہ ایک اور آپشن ہو سکتا ہے۔ اس پر غور کیا گیا تھا لیکن ترک کر دیا گیا۔ اگر ایسا کیا جائے تو ڈیم پھٹ سکتا ہے اور یہ سوڈان میں بھی بڑے سیلاب کا سبب بنے گا۔ اور عالمی غیض و غضب کا سامنا ہو گا۔ اس کے علاوہ مصر میں رافیل طیارے اور F16 اس قابل نہیں کہ ہوا میں تیل بھرا جا سکے اور لمبی پرواز کر سکیں۔ ایتھوپیا نے اسرائیل سے خرید کر میزائل ڈیفنس سسٹم بھی ڈیم پر نصب کئے ہیں۔ ایتھیوپیا کی فوج مصر سے کمزور ہے لیکن یہ فرانس، روس، امریکہ اور اسرائیل سے ہتھیار خرید رہی ہے۔ اور اپنے ملک میں اچھی جنگ لڑ سکتی ہے۔ اور جغرافیہ اس کا اچھا اتحادی ہے۔
ایک اور پہلو سفارت کاری کا ہے۔ چونکہ اہم ممالک ایتھوپیا میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں تو جنگ ان کے مفاد میں نہیں۔
ایتھوپیا نے مصر کو یقین دلوانے کی کوشش کی ہے کہ بہاؤ میں خاص کمی نہیں ہو گی جبکہ مصر اپنی زراعت کو تبدیل کرنے کی کوشش بھی کر رہا ہے کہ پانی کی ضرورت نسبتا کم پڑے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوڈان اور جنوبی سوڈان کی حکومتیں اس کو دھیان سے دیکھ رہی ہیں۔ ایتھوپیا نے انہیں پانی اور بجلی دینے کا یقین دلایا ہے۔ اور اس کے بدلے یہ سوڈان اور جنوبی سوڈان سے تیل خریدے گا۔ “نیلے سونے” کے بدلے “سیاہ سونا”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پانی ان ممالک کے لئے قومی سلامتی کا مسئلہ ہے جن کا انحصار نیل پر ہے۔ یوگنڈا، برونڈی، کانگو، مصر، کینیا، ایتھوپیا، ایریٹریا، روانڈا، جنوبی سوڈان، سوڈان اور تنزانیہ اس دریا کا بہاؤ دیکھ رہے ہیں لیکن سب سے خطرے میں مصر ہے جبکہ سب سے کم خطرے میں ایتھوپیا۔ اور مصر کو اس بات کو قبول کرنے میں وقت تو لگے گا لیکن ایک صدی پہلے یہ یہاں کی بڑی طاقت تھے۔ اب وقت بدل چکا ہے۔ یونانی مورخ ہیروڈوٹس نے مصر کو “نیل کا تحفہ” کہا تھا۔ اور اس کا کمزور نکتہ بھی ہے۔
یہ ڈیم ایتھوپیا کو ایک سنہری موقع دیتا ہے کہ صدیوں پرانا غربت اور نسلی تشدد کا چکر روک سکے۔ ٹیکنالوجی کی مدد سے ایتھوپیا اپنی جغرافیائی قید کی سلاخیں موڑ سکتا ہے۔ پانی اسے سیاسی طاقت دیتے ہیں اور اب توانائی بھی دے سکتے ہیں،
 اگر اس کا دانائی سے استعمال کیا جائے تو سستی اور وافر بجلی کروڑوں لوگوں کی زندگیاں بدل سکتی ہے۔ اور اس وجہ سے امن بھی لا سکتی ہے۔ اگر ساتھ سات ااچھی حکومت مل سکے تو ایتھوپیا ایک مستحکم طاقت بن سکتا ہے۔
بہرحال، ایتھوپیا کو کئی چیلنج کا سامنا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے اس کے میدانوں پر خشک سالی کا خطرہ ہے۔ جنگل کٹنے سے، مٹی کا کٹاؤ زیادہ ہو رہا ہے، صحرا پھیل رہا ہے۔ ملک میں لاکھوں پناہ گزین ہیں جو جنوبی سوڈان، صومالیہ اور ایریٹریا سے تعلق رکھتے ہیں۔ اندرونی طور پر دسیوں لاکھ لوگ displaced ہیں۔ قزن افریقہ انتہاپسند گروہوں کا بھی گڑھ ہے اور لگتا نہیں کہ یہ جلد بدلے گا۔
ان مسائل کا سامنا کرنے کے لئے استحکام درکار ہے اور یہ سب سے بڑا چیلنج ہے۔
ایتھوپیا میں محاورہ ہے کہ “جب مکڑیوں کے جالے آپس میں باندھے جا سکیں تو یہ شیر کو باندھ سکتے ہیں”۔ اگر سیاسی اور کاروباری طبقہ معیشت کو سنبھال سکے اور سیاستدان یکجہتی قائم کر سکے تو یہ ملک “افریقہ کی کامیابی کی کہانی” بن سکتا ہے۔
اور اگر نہیں تو اس کی وجہ یہ ہو گی کہ مکڑی کے جالوں کے بندھن اتنے مضبوط نہیں تھے۔

(جاری ہے)

 





کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں