باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

ہفتہ، 16 دسمبر، 2023

جغرافیہ کی طاقت (75) ۔ سپین ۔ خانہ جنگی

 


لاطینی امریکہ پر سپین قابض تھا۔ یہاں پر بغاوتیں شروع ہو گئیں۔ ان کی قیادت بولیوار اور ہوزے ڈی سان مارٹن کر رہے تھے۔ (بولیوار کے نام پر بولیویا کا ملک ہے)۔ جنوبی امریکہ سپین سے 1826 میں آزاد ہو چکا تھا۔
سپین کے اندر انیسویں صدی میں تنازعات سر اٹھاتے رہے۔ شہری اور دیہی آبادی کے درمیان۔ لبرل اور روایت پسندوں کے درمیان۔ ایک علاقے اور دوسرے علاقے کے درمیان۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملٹری نے حکومت میں اپنی مضبوط جگہ بنا لی۔ سخت گیر کیتھولک اور لبرل گروہوں کے درمیان کی جنگیں زیادہ خونخوار رہیں جس میں دونوں اطراف نے دوسرے پر بھیانک ظلم ڈھائے۔ اور اس کی تلخی بیسویں صدی تک بھی پہنچی۔
انیسویں صدی کے دوسرے نصف میں سپین نے کوشش کی کہ صنعتی انقلاب کو اپنایا جا سکے۔ برطانیہ، جرمنی اور فرانس اس سے فائدہ اٹھا کر دنیا میں آگے بڑھ رہے تھے لیکن یہ ممالک سپین کے مقابلے میں اندرونی طور پر اتحاد حاصل کر چکے تھے۔ سپین سڑکوں اور ریلوے میں پیچھے رہ گیا تھا۔ آبادی منقسم تھی۔ اور ایسے علاقے تھے جہاں پر علاقائیت اور مقامی وفاداری ریاستی وفاداری سے زیادہ مضبوط تھی۔
سپین کی سمندر پار سلطنت کی آخری باقیات 1898 میں الگ ہو گئیں جب پیورٹو ریکو، کیوبا اور فلپائن اس کے ہاتھ سے نکل گئے۔ اگرچہ عثمانیوں کو یورپ کا مرد بیمار کہا جاتا تھا لیکن سپین کی صحت بھی زیادہ اچھی نہ تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سپین کی خوش قسمتی رہی کہ یہ پہلی جنگ عظیم سے باہر رہنے میں کامیاب رہا۔ دوسرے ممالک کی تباہی سے محفوظ رہا۔ یورپ میں فاشزم بمقابلہ کمیونزم کا دور دورہ تھا۔ اس کا اثر سپین پر بھی پہنچا۔
ملٹری نے حکومت 1923 میں سنبھال لی تھی لیکن مگوئل ڈی ریورا کا دورِ حکومت صرف چھ سال رہا۔ انتخابات 1931 میں ہوئے۔ نئی حکومت بنی۔ نئے حکمرانوں نے ملک کو ری پبلک بنانے کا اعلان کیا۔ فوجی افسران کو نکالا گیا۔ کیتھولک چرچ کی سہولیات ختم کی گئیں۔ جاگیروں کو قومیایا گیا۔ صنعتی مزدوروں کی تنخواہوں میں اضافہ ہوا۔ اس نے چار طبقات کو حکومت کا دشمن بنا دیا۔ چرچ، ملٹری، جاگیردار اور صنعت کار۔
حکومت کا تخت الٹ دینے کی کوشش چند ماہ بعد ہی ہو گئی جو ناکام رہی۔ لیکن اس سے جو افراتفری شروع ہوئی اس نے اگلے انتخابات 1933 میں کروا دئے۔ نئی حکومت آئی جس نے پچھلی حکومت کے سارے کام الٹ دئے۔ اس میں کاتالونیا کو دی گئی خودمختاری بھی تھی۔ 1936 میں ملک میں مظاہرے اور ہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہوا جس کو سختی سے دبایا گیا۔ معیشت زمین بوس ہو گئی اور اگلے انتخابات کا اعلان ہو گیا۔ اس بار نئی جماعت پاپولر فرنٹ جیتی۔ لیکن مضبوط حکومت نہ بنی۔ ملک خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہا تھا۔
بارہ جولائی کو ہوزے کاسٹیلو کو قتل کر دیا گیا۔ یہ پاپولر فرنٹ کی حکومت کے پیرا ملٹری ادارے کے سربراہ تھے۔ انتقام فوری لیا گیا۔ مخالف سیاستدان ہوزے سوٹیلو کے گھر پر پولیس نے دھاوا بولا۔ پولیس کی گاڑی انہیں اٹھا کر لے گئی۔ ان کی گردن میں گولی مار کر انہیں مار دیا گیا۔
سوٹیلو کے جنازے میں ہزاروں نے شرکت کی۔ اور پھر یہ شہر میں آ گئے۔ کئی مظاہرین پیراملٹری فورس کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے۔ اس سے تین روز بعد فوج کے اندر سے بغاوت شروع ہو گئی۔ چار جنرلوں نے آرمی سے الگ ہو کر بغاوت کر دی۔ ان میں فرانسسکو فرانکو بھی شامل تھے۔ یہ سپین کی خانہ جنگی کا آغاز تھا۔
اگلے دو سال تک تلخ جھڑپیں جاری رہیں۔ ایک طرف نیشنلسٹ تھے جنہیں یورپ سے فاشسٹ حمایت حاصل تھی۔ دوسری طرف ری پبلکن تھے جنہیں کمیونسٹ حمایت حاصل تھی۔ اس میں نیشنلسٹ کامیاب رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ری پبلکن فورسز تھک چکی تھیں۔ تیس لاکھ پناہ گزین  بے گھر ہو کر نقل مکانی کر رہے تھے۔
فرانکو کی افواج نے فروری 1939 میں بارسلونا فتح کر لیا۔ برطانیہ اور فرانس نے انہیں سپین کا حکمران تسلیم کر لیا۔ مارچ میں دو لاکھ کی فوج میڈرڈ پر قابض ہو گئی۔
اپریل میں فرانکو کے مخالفین غیرمشروط طور پر ہتھیار ڈال چکے تھے۔
اس خانہ جنگی میں کتنے لوگ مارے گئے؟ مورخین کے خیال میں یہ تعداد پانچ سے دس لاکھ کے درمیان کی ہے۔
دونوں اطراف نے دسیوں ہزار مخالفین کو سزائے موت دی تھی۔ جنگ بندی کے بعد ہزاروں مزید کو مارا گیا۔ فرانکو فاشزم کا شکنجہ زندگی کے ہر پہلو پر مضبوط کرنا چاہتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سپین میں یہ ایک طویل آمریت کا آغاز تھا۔
(جاری ہے)

 


 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں