عظیم کساد بازاری کا وقت آیا تو امریکہ شدید معاشی بدحالی کا شکار ہو گیا۔ اس وقت اس بحث نے شدت سے سر اٹھا لیا کہ میکسیکو کی طرف سے آنے والے لوگ امریکہ میں رہنے والوں کا روزگار لے رہے ہیں۔ پانچ لاکھ سے بیس لاکھ لوگوں کو ملک بدر کر کے میکسیکو بھیجے گئے۔ جب دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی تو ایک بار پھر یہ تبدیل ہو گیا کیونکہ امریکہ کو افرادی قوت درکار تھی۔ 1942 میں باقاعدہ مہم شروع ہوئی کہ لوگوں کو امریکہ آنے کی ترغیب دی جائے۔ یہ 1960 کی دہائی تک جاری رہا۔
معیشت کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ تارکین وطن کیلئے پالیسیاں تبدیل ہوتی رہیں۔ 1978 میں پہلی بار خاردار تاریں لگانے کے لئے ٹینڈر جاری ہوئے جو کہ لوگوں کی آمد کو روک سکیں۔
اگلے برسوں میں رکاوٹیں بنائی جاتی رہیں۔ ویتنام کی جنگ سے بچ جانے والی فولادی چادریں بھی استعمال ہوئیں۔ پہلے ٹیکساس اور پھر کیلے فورنیا میں نصب ہونے لگیں۔ سرحدوں کی نگرانی کرنے والی فورس جو منشیات روکنے کے لئے قائم ہوئی تھی، وہ انسان روکنے کا کام بھی کرتی تھی۔ ان سب کی مدد سے آمد کی رفتار سست تو ہوتی ہے لیکن رکتی نہیں۔
اکیسویں صدی شروع ہوئی۔ گیارہ ستمبر 2001 کو ایک بڑا واقعہ ہوا جس کے نتیجے میں سرحدی نگرانی کی ضرورت کا احساس بہت بڑھ گیا۔ نئے قوانین منظور ہوئے۔ چھ سو میل کی رکاوٹیں جارج بش کے دور میں قائم کی گئیں۔ اوبامہ صدر بنے تو یہ پروگرام ویسے ہی جاری رہا۔ سرحدی رکاوٹیں تعمیر ہوتی رہیں۔ دگنی اور تگنی تہیں تعمیر ہوئیں۔ اونچی کی گئیں۔ آنے والوں کی تعداد میں کچھ کمی تو آئے لیکن 2011 میں ایک کروڑ گیارہ لاکھ لوگ غیرقانونی طریقے سے ملک میں رہ رہے تھے۔
امریکہ مواقع کی سرزمین ہے۔ صرف ان کے لئے ہی نہیں جو کہ روزگار کی تلاش میں آتے ہیں بلکہ روزگار دینے والوں کے لئے بھی جو کہ غیرقانونی طور پر آنے والوں کا استحصال کر کے منافع کی تلاش میں ہیں۔ بہت سی کمپنیاں ایسے لوگوں سے کام کروانے کی تلاش میں ہوتی ہیں جن کو کم پیسے دیے جائیں، قانونی حقوق نہ دیے جائیں۔ تعمیراتی کام ہوں یا کھیتوں میں فصل کاٹنے کا کام ۔۔۔ یہ سستے میں ہو جاتا ہے۔
دنیا میں دہشتگردی کا مسئلہ بڑھنے کی وجہ سے بھی امیگریشن کے قوانین میں سختی زیادہ ہوئی تاہم ایک مسئلہ یہ ہے کہ افکار کا سفر دیواروں سے نہیں روکا جا سکتا۔ اس کی ایک مثال سان برنارڈینو میں 2015 میں ہونے والا حملہ تھا جس میں چودہ لوگ ہلاک اور بائیس زخمی ہوئے۔ یہ کرنے والے تاشفین ملک اور سید رضوان فاروق تھے جن کی پیدائش اور شہریت امریکہ کی ہی تھی لیکن شدت پسندی کی طرف راغب ہونے کی وجہ سوشل میڈیا تھی۔ بل کلنٹن کا اس پر کہنا تھا کہ “آپ ملک کے شمال اور جنوب میں دیواریں بنا لیں۔ بحرالکاہل اور اوقیانوس میں بھی عظیم دیواریں بنا لیں۔ بحریہ کو خلیج پر تعینات کر دیں۔ کسی بھی شخص کو ملک میں آنے سے روک دیں۔ کسی بھی جہاز کو ملک میں نہ اترنے دیں۔ لیکن پھر بھی افکار کا سفر کیسے روکیں گے؟ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کو کیسے باہر رکھیں گے؟”۔
Post Top Ad
جمعہ، 6 دسمبر، 2024
Tags
Divided#
Share This
About Wahara Umbakar
علم کی تحریریں۔ مجھے امید ہے کہ میری یہ کاوش آپ سب کو پسند آئے گی اگر آپ نے میری اس کاوش سے کچھ سیکھا ہو یا آپ کے لئے یہ معلومات نئی ہوں تو اپنی رائے کا اظہار ضرور کیجیئے گا۔ شکریہ
۔
وہارا امباکر
لیبلز:
Divided
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں