باتیں ادھر ادھر کی

Post Top Ad

جمعہ، 6 دسمبر، 2024

دیواریں (9)


امریکی ریاست ٹیکساس کی آبادی تین کروڑ ہے اور اس میں ایک تہائی سے زائد ہسپانوی نسل کے ہیں۔ پچاس لاکھ تارکین وطن یہاں آباد ہیں جن میں زیادہ تر ہسپانوی زبان بولنے والے ہیں۔ امریکہ کی جنوبی ریاستوں میں ہمیں ایسا ہی نظر آتا ہے۔ ایسا ہو سکتا ہے کہ آئندہ دہائیوں میں ہسپانوی کئی ریاستوں میں قانونی طور پر انگریزی کے ساتھ سرکاری زبان بن جائے۔ امریکہ میں وفاقی سطح پر کوئی سرکاری زبان نہیں ہے۔ ٹیکساس اور نیومیکسیکو جیسی ریاستیں ہسپانوی زبان کو سرکاری دستاویزات میں بھی استعمال کرتی ہیں۔ یہ استعمال اور ریاستوں کی تعداد بڑھ سکتی ہے۔ اور ایسا ہونا ناممکن نہیں کہ آئندہ کی دہائیوں میں ہسپانوی طرز زندگی کی اکثریت ہو جانے پر یہ ریاستیں وفاق سے زیادہ خودمختاری کا مطالبہ کریں۔ تاریخ میں ایسی مثالیں دنیا میں کئی جگہوں پر موجود ہیں۔
امریکہ میں کئی حلقے اس بات پر فکرمند ہیں کہ جس طرح ڈیموگرافک تبدیلیاں آ رہی ہیں، ویسے اس کا تشخص بدل رہا ہے۔ موجودہ اکثریتی گروہ کل کے اقلیتی گروہ ہو سکتے ہیں۔ اور ٹرمپ کی مقبولیت میں ایک عنصر یہ بھی رہا ہے۔ اور ٹرمپ کا کنکریٹ کی بنی اونچی دیوار کا نعرہ اس وجہ سے ایسے حلقوں میں مقبول رہا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ انیسویں صدی میں امریکہ اور میکسیکو کے درمیان کی یہ سرحد طے کرنا آسان سفر نہیں رہا تھا۔ اس کی موجودہ شکل 1848 میں ہونے والے معاہدے کا نتیجہ ہے جو کہ جنگ کے خاتمے کے بعد ہوا تھا۔ اس معاہدے سے پہلے اس کی شکل خاصی مختلف تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سپین کے پاس 1803 میں ٹیکساس کا کنٹرول تھا۔ امریکہ نے اس وقت “لوزیانا خریداری” کے تحت بہت بڑی اراضی فرانس سے خریدی تھی۔ اور اسے خوف تھا کہ ایک ممکنہ دشمن فوج اس پر حملہ آور ہو سکتی ہے۔ اس وجہ سے اسے علاقے کا کنٹرول درکار تھا جس نے سپین کے ساتھ جھگڑا شروع کیا۔ سپین کا یہاں سے فاصلہ زیادہ تھا۔ یورپی جنگوں نے اسے کمزور کر دیا تھا۔ 1819 میں ہونے والے مذاکرات میں دونوں ممالک میں یہ طے ہوا کہ فلوریڈا کا علاقہ امریکہ کو ملے گا جبکہ سپین ٹیکساس پر کنٹرول قائم رکھے گا اور اس پر سے دعوے کو واپس لے لے گا۔ لیکن پھر 1821 میں صورتحال اس وقت تبدیل ہو گئی جب میکسیکو نے سپین سے آزادی لے لی۔ میکسیکو نے دعویٰ کیا کہ سپین اس کا حصہ ہے۔ اور اس کے لئے اقدامات شروع کر دیے۔ ان میں سے ایک یہ تھا کہ تارکین وطن اگر ٹیکساس میں رہیں گے تو انہیں تین سال میں میکسیکو کی شہریت مل جائے گی۔ لیکن یہاں پر ایک مسئلہ پیدا ہو گیا۔ نئے آنے والوں کی مطابقت میکسیکو کے کلچر سے نہیں تھی۔ اس میں دو بڑے فرق تھے۔ سب سے بڑا مسئلہ مذہبی تھا۔
زیادہ تر آنے والے پروٹسٹنٹ تھے جبکہ میکسیکو کا اصرار تھا کہ اس علاقے کا واحد مذہب کیتھولک مسیحیت ہی ہو گا۔ یہ بہت سے نئے آنے والوں کے لئے قابلِ قبول نہیں تھا۔ ایک اور مسئلہ اس وقت پیدا ہوا جب میکسیکو نے غلامی پر 1829 میں پابندی لگا دی جبکہ یہاں پر رہنے والوں میں کئی غلام رکھتے تھے۔ ایسے مسائل کی وجہ سے میکسیکو نے امیگریشن پر ہی پابندی لگا دی لیکن یہ موثر نہ رہی۔ لوگ آتے رہے۔ اور بالآخر وہ وقت آ گیا کہ میکسیکو کی حکومت کے خلاف بغاوت ہو گئی۔ ٹیکساس نے 1836 میں آزادی کا اعلان کر دیا۔ اس نے کوشش کی کہ امریکہ میں شامل ہو جائے لیکن امریکہ کئی سال تک انکار کرتا رہا۔ اس کی دو وجوہات تھیں۔ ایک تو یہ کہ امریکہ کو یہ خواہش نہیں تھی کہ میکسیکو کے ساتھ لڑائی مول لے۔ دوسرا یہ کہ امریکی یونین خود غلامی پر تنازعے کا شکار تھی اور اس میں اضافہ نہیں چاہتی تھی۔ بالآخر، 1845 میں امریکہ نے ٹیکساس کے الحاق کو قبول کر لیا اور یہ امریکہ کی اٹھائیسویں ریاست بن گئی۔
امریکہ نے مغرب کی طرف بڑھنا شروع کیا اور اس نے 1846 میں میکسیکو کے ساتھ جنگ چھیڑ دی۔ یہ جنگ 1848 تک جاری رہی۔ میکسیکو کو بڑے علاقے سے محروم ہونا پڑا جس میں موجودہ نیو میکسیکو، ایریزونا، نیواڈا، یوٹاہ اور کیلے فورنیا کی ریاستیں شامل تھیں۔ میکسیکو کمزور تھا جبکہ امریکہ طاقتور۔ لیکن وقت یکساں نہیں رہتا۔ سرحدیں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ امریکی اس بات سے آگاہ ہیں۔ جنگ بندی کے بعد چھ سال تک سروے ہوتے رہے۔ سرحد غیررسمی رہی۔
اس میں ایک بڑی تبدیلی اس وقت آئی جب امریکہ نے الکوحل کے استعمال پر پابندی عائد کر دی۔ یہ پابندی 1920 سے 1933 تک رہی۔ اس دوران میکسیکو سے الکوحل کی سمگلنگ ہوتی۔ اس کے سد باب کے لئے نئی ایجنسی 1924 میں قائم ہوئی جو کہ سرحدی نگرانی کی تھی تا کہ غیرقانونی طور پر شراب نہ آ سکے۔ یہ تو ختم ہو گیا لیکن سمگلنگ جاری رہی۔ مصنوعات تبدیل ہو گئیں۔ منشیات اس میں شامل ہو گئیں۔ چرس، کوکین اور ہیروئین اس میں نمایاں رہے ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

میرے بارے میں