باتیں ادھر ادھر کی

Post Top Ad

جمعہ، 6 دسمبر، 2024

دیواریں (15) ۔ مشرقِ وسطی


کالونیل دور کی سرحدوں نے عرب کی روایتی ثقافتی تقسیم کو نظرانداز کیا۔ ایسے لوگ جو کہ بہت مختلف تھے، انہیں ایک ہی ملک میں یکجا کرنے کا مطلب یہ تھا کہ ان کی نئے ملک کے ساتھ وفاداری نہیں تھی بلکہ اپنے قبیلے کے ساتھ تھی۔ جبکہ کئی جگہوں پر ایک کمیونٹی کو درمیان سے کاٹ دیا گیا۔ جغرافیائی تقسیم کے ساتھ علاقوں میں دولت کی تقسیم میں بہت فرق رہا۔ اور دولت کے استعمال میں دانشمندی نہیں برتی گئی۔ حکمران اشرافیہ نے اس کو ضائع کیا جس وجہ سے غربت اور معاشی پسماندگی عرب ممالک میں عام رہی ہے۔
مصری ماہرِ شماریات نادر فرغانی اپنی رپورٹ میں لکھتے ہیں کہ بائیس عرب ممالک میں تعلیم کی سطح اور اوسط زندگی میں اضافہ ہوا ہے۔ بچپن میں اموات میں کمی آئی ہے لیکن کئی قسم کے مسائل اس خطے میں زیادہ ہیں۔
نادر اپنی رپورٹ میں تین قسم کے مسائل کا ذکر کرتے ہیں جو اس خطے کی ترقی میں رکاوٹ بنے ہیں۔ پہلا، آزادی سے محرومی ہے۔ یہ فکری آزادی اور سیاست پر لگائی گئی قدغن ہیں۔ دوسرا، اظہار رائے اور علم کی ترسیل کی رکاوٹ ہے اور تیسرا خواتین کی معاشرے میں فعال شرکت کی سطح دنیا کے مقابلے میں بہت کم ہونا ہے۔
شہری حقوق اور اظہار رائے کی آزادی کے حوالے سے زیادہ تر عرب ممالک میں مسائل ہیں۔ سنسرشپ کڑی ہے۔ اس کا نتیجہ براہ راست تعلیم اور آگاہی میں پسماندگی کی صورت میں نکلتا ہے۔ انٹرنیٹ پر لگائی گئی پابندیاں بھی زیادہ ہیں۔
عرب حکومتوں میں اپوزیشن کے ساتھ بے رحمی کا سلوک عام ہے۔ شخصی آزادی محدود ہے۔ اور یہ کبھی کسی ملک کے لئے اچھا نہیں ہوتا۔ بائیس میں سے گیارہ عرب ممالک اندرونی انتشار کا شکار ہیں۔  
ایک عرب مورخ کے مطابق “ایک وقت میں یہ خطہ آزادی فکر اور ترقی کے اعتبار سے دنیا میں سب سے آگے تھا۔ پہلے انتشار آیا، اننشار کے ساتھ جبر اور جبر کے ساتھ تنزلی”۔
اس تھیوری کے ناقد دنیا کے ان ممالک کی طرف اشارہ کر سکتے ہیں جہاں پر آزادیوں پر قدغن نے ترقی کو نہیں روکا۔ جیسا کہ چین یا سنگاپور۔ لیکن بہرحال، عرب دنیا اس وقت تبدیلی کی ہواؤں کی زد میں ہے۔ سعودی عرب کا وژن 2030 ہو یا متحدہ عرب امارات میں اصلاحات۔ معاشرتی تبدیلی سست رفتار اور مستقل ہے۔
سیاسی طور پر عرب دنیا میں نیشنلزم اور سوشلزم کو آزمایا جا چکا ہے۔ آمریت کے علاوہ دولت اسلامیہ کی حکومت کی ناکامی بھی دیکھی جا چکی ہے۔ وراثتی بادشاہت کئی ممالک میں مستحکم رہی ہے۔
متحد عرب کا خواب 1916  کی عرب بغاوت کی وقت دیکھا گیا تھا لیکن یہ خواب ہی رہا۔ مختلف حکمرانوں اور بادشاہتوں میں اثر و رسوخ کی جنگ رہی ہے جس نے علاقے میں عدم استحکام پیدا کیا۔
اس وقت کہیں پر مضبوط جمہوری پلیٹ فارم نہیں۔ اپنے مسائل کے ساتھ ساتھ ایک احساس بڑھ رہا ہے جس پر نئی عرب نسل کا بڑی حد تک اتفاقِ رائے ہے کہ انہیں خطے میں ایک نئی دیوار کی ضرورت ہے۔ ایسی دیوار جو کہ شدت پسندی اور عسکریت پسندی کو دور رکھ سکے۔
جمہوری ممالک میں سیاسی جماعتوں کی نسلی یا مذہبی بنیاد پر تنظیم کم ہی ہوتی ہے۔ بڑی جماعتیں عام طور پر معاشرے کے بڑے حصے پر اثر رکھتی ہیں۔ لیکن مشرقِ وسطیٰ میں ایسی سیاسی جماعتوں کی یاد آمرانہ حکومتوں سے ہے۔ عراق اور سیریا کی بعث پارٹی اس کی مثال ہے جو کہ سیکولر سوشلسٹ سیاسی جماعتیں تھین۔ اگرچہ یہ نسلی اور مذہبی تقسیم پر نہیں بنی تھیں لیکن انہوں نے اپنی آبادی کو جابرانہ طریقے سے کنٹرول کیا۔ مشرق وسطی میں سیاست کے بارے میں عدم اعتماد کی ایک یہ وجہ بھی رہی ہے۔
اور جب سیاست پر اعتماد ختم ہو جائے تو فرقہ واریت اور قبائلیت اور نسل پسندی عروج پاتے ہیں۔ شدت پسندی بڑھتی ہے۔ اور یہ عرب ممالک کا ایک مسئلہ رہا ہے۔
نئی تعلیم یافتہ نسل کے عرب اپنی تقسیم اور انتشار کو چھوڑ کر آگے بڑھنا چاہتی ہے۔ کیا یہ خطہ خوف، جبر اور شک کی دیواروں کو روند کر آگے بڑھ سکے گا؟ تاریخ کا بوجھ اس میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔

 



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

میرے بارے میں