باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعہ، 6 دسمبر، 2024

دیواریں (16) ۔ برصغیر


انڈیا اور بنگلہ دیش کی سرحد پر دنیا کی طویل ترین سرحدی باڑ نصب ہے۔ یہ اڑھائی ہزار میل لمبی ہے اور بنگلہ دیش کو ہر طرف سے ڈھک دیتی ہے۔ بنگلہ دیش کے پاس صرف 360 میل لمبی کھلی سرحد ہے جو کہ خلیج بنگال کا ساحل ہے۔ خلیج سے شمال کی طرف لہراتی اور بل کھاتی یہ باڑ پہلے میدانی علاقوں سے گزرتی ہے۔ اس کے بعد بھوٹان اور نیپال کے قریب کے پہاڑی علاقے پر۔ اوپر جا کر یہ دائیں طرف موڑ کاتے ہیں اور نیچے گھنے جنگلات اور میدانوں کی طرف آتے ہے۔ پھر جنوب کی طرف دریا کے ساتھ ساتھ پہاڑیوں سے گزر سمندر کی جانب روانہ ہوتی ہے۔ اس کے دونوں طرف کے علاقے گنجان آباد ہیں۔ باڑ کے قریب فصلیں کاشت کی جاتی ہیں۔
اس کے سینکڑوں میلوں پر ڈبل باڑ بنی ہے۔ کئی حصے خاردار ہیں۔ کچھ پر دیوار بنی ہے۔ کہیں پر برقی رو دوڑتی ہے۔ کچھ حصوں میں فلڈلائٹ لگی ہیں۔ مغربی بنگال کے کچھ حصوں میں سمارٹ سنسر لگے ہیں۔ رات کو دیکھنے اور حرارت سے جسم کا پتا لگنے والے آلات نصب ہیں۔ کیمرہ سسٹم سیٹلائیٹ سے منسلک ہیں۔
انڈیا ایسا سسٹم چاہتا ہے جس پر سرحد کی نگرانی کے لئے بڑی تعداد میں فورس تعینات نہ کرنی پڑے۔ ٹیکنالوجی اس میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ اگر کنٹرول روم سے میلوں دور بھی کوئی سنسر شور مچا دے تو ایک منٹ میں ڈرون وہاں پہنچ کر کام شروع کر دیتا ہے۔
ان سب اقدامات کے باوجود لوگ یہ سرحد پار کر لیتے ہٰں۔ خاردار تار سے گزر جاتے ہیں۔ سرحدی محافظوں کی فائرنگ سے سینکڑوں لوگ مارے جا چکے ہیں۔ ان میں سے ایک پندرہ سالہ فیلانی خاتون تھیں جو کہ 2011 میں گولی کا نشانہ بنیں۔
ان کا خاندان انڈیا میں غیرقانونی طور پر کام کر رہا تھا۔ ان کے پاس پاسپورٹ یا ویزہ نہیں تھے لیکن انہیں واپس بنگلہ دیش جانا تھا۔ فیلانی اور ان کے والد نے سمگروں کو سرحد پار کروانے کے لئے پچاس ڈالر ادا کئے تھے۔ صبح سویرے دھند نے علاقے کو لپیٹ میں لیا ہوا تھا۔ سمگلر نے بانس کی سیڑھی سرحدی باڑ پر رکھی۔ اس پر چڑھتے وقت ان کی شلوار قمیض کانٹوں میں پھنس گئی اور وہ گھبرا گئیں۔ گھبراہٹ میں چیخ پکار کرنے لگیں اور والد کو آواز دینے لگیں اور یہ آواز انڈیا بارڈر سیکورٹی فورس کے اہلکار کو پہنچ گئی جن کو گولی مارنے کا حکم تھا۔ اہلکار نے ایسا ہی کیا۔ بچی کی موت سست رفتار اور دردناک تھی۔ وہ باڑ میں پھنسی رہی۔ خون بہتا رہا۔ کئی گھنٹے گزر گئے۔ سورج نکل آیا۔ دھند چھٹ گئی۔ زخموں کی تاب نہ لا کر فیلانی خاتون نے اپنی آخری سانس لے لی۔ اس بچی کے دردناک قتل نے عالمی توجہ حاصل کی۔ دیکھتے ہی گولی مار دینے کی پالیسی تنقید کا نشانہ بنی۔ یہ اس چیز کی یاددہانی تھی کہ رکاوٹیں جان لیوا ہوتی ہیں۔ اور ایسا صرف اسی سرحد کے ساتھ نہیں۔ سرحدیں پار کرنے پر ہونے والی اموات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دنیا میں 2016 میں ایسی 7200 اموات ہوئیں جو کہ سرحدی سیکورٹی میں اضافے کا نتیجہ تھیں۔
انڈیا اور بنگلہ دیش کی سرحد کے درمیان لگی باڑ کا جواز سمگلنگ اور غیرقانونی تارکنِ وطن کو روکنا ہے۔
برصغیر ایک سیاسی اکائی کے طور پر کبھی بھی نہیں رہا۔ مذہب یہاں کی تقسیم میں سے ایک اہم ہے۔
جب برصغیر میں مسلمان آئے تو مقامی آبادی میں ہندو بڑی اکثریت تھے۔ بڑی تعداد میں آبادی میں مذہب کی تبدیلی ہوئی۔ مغلیہ دور میں مسلمانوں کی حکومت انڈیا کے بڑے حصے تک پھیل۔تھر کے مغرب اور گنگا کے ڈیلٹا میں اکثریت مسلمان ہوئے لیکن باقی زیادہ تر علاقوں میں ہندو ہی اکثریت میں رہے۔
جب برٹش راج زوال پذیر ہوا تو یہاں کے مستقبل کا سوال کھلا تھا۔ کیا ہندو کش سے اراکان کے پہاڑوں تک اور ہمالیہ سے بحرِہند تک ایک کثیر قومیتی جمہوری ریاست قائم کی جا سکتی ہے؟ مہاتمہا گاندھی جیسے قائدین کا یہ خیال تھا لیکن جو رائے بالآخر غالب رہی، وہ یہ کہ اسے دو حصوں میں تقسیم کیا جائے۔ اس تقسیم کے لئے جو بھی سرحدیں کھینچی جانی تھیں، وہ ایک نئی ہی ہونی تھیں۔ اور ان کی بنیاد جغرافیائی یا تاریخی نہیں ہو سکتی تھی۔
بہرکیف، یہ کام کیا گیا۔ مذہبی تقسیم جغرافیائی تقسیم بنی اور اسے زمین اور ذہنوں پر کھینچ دیا گیا۔
بہت سی جگہوں پر سرحد نے پہلے سے موجود کمیونٹی کو الگ کیا اور لوگوں کو ہجرت کرنا پڑی۔ یہ پرامن نہیں تھی۔ بے انتہا خون۔ بہا۔ سکھ، ہندو اور مسلمانوں نے ان علاقوں میں جا کر سکونت اختیار کی جنہیں وہ محفوظ سمجھتے تھے۔ اگلی دہائیوں میں یہ سرحدیں کاغذ سے نکل کر کنکریٹ کی دیواروں اور خاردار تاروں میں بدلنے لگیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں