باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعہ، 6 دسمبر، 2024

دیواریں (17) ۔ برصغیر


انڈیا میں نقل مکانی کر کے آنے والے کئی ممالک سے یہاں پہنچے۔ جب چین نے تبت کو اپنا حصہ بنا لیا تو 1951 میں سوا لاکھ کے قریب تبت سے لوگ یہاں آئے۔ سری لنکا کی خانہ جنگی کے وقت ایک لاکھ تامل آئے۔ لیکن بڑی تعداد وہ تھی جو کہ مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) سے انڈیا پہنچی۔ بنگلہ دیش تین اطراف سے انڈیا سے گھرا ہوا ہے۔ اور یہاں سے انڈیا کئی لہروں میں ہجرت ہوئی۔ 1947 میں ہونے والی بڑی ہجرت کے بعد مشرقی پاکستان کو سیاسی مسائل کا سامنا رہا۔ مغربی اور مشرقی پاکستان میں لسانی اور جغرافیائی دوری تھی۔ حالات خاص طور پر اس وقت زیادہ بگڑ گئے جب سیاسی مسائل کو پاکستانی فوجی حکومت نے طاقت اور جبر کے زور پر حل کرنے کی کوشش کی۔ پاکستانی فوج کے اپنے ہی شہریوں کے کئے گئے بڑے قتل عام کے دوران کئی ملین افراد انڈیا کی طرف فرار ہوئے۔ 1971 میں بنگلہ دیش آزاد ہوا لیکن لوگوں کے لئے زندگی دشوار رہی۔ شدید غربت وہ بڑا محرک رہا جس باعث ہر سال ہزاروں لوگ انڈیا کی طرف کا رخ کرتے رہے ہیں۔
بنگلہ دیش نے اگرچہ حالیہ برسوں میں تیزرفتار ترقی تو کی ہے لیکن کروڑوں لوگ سخت غربت کا شکار ہیں۔ اور ان میں بھی اقلیتی گروہوں کی حالت زیادہ بری ہے۔ ہر سال آنے والے سیلاب اور طوفان اس پر مستزاد ہیں۔ اور اس وجہ سے لوگ انڈیا جاتے رہے ہیں۔
اس کے علاوہ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ انڈیا اور بنگلہ دیش کی سرحد کی تقسیم میں کئی جگہوں پر وہ کمیونیٹی آپس میں تقسیم ہو گئیں جو صدیوں سے سیاسی طور پر یکجا رہی تھیں۔ کلچرل اور لسانی یکسانیت تھی اور قومی ریاست کی تقسیم ان کے لئے اجنبی تھی۔  
کل ملا کر اندازہ ہے کہ ڈیڑھ کروڑ سے زائد لوگ ایسے ہیں جو کہ مستقل طور پر بنگلہ دیش سے انڈیا کی طرف منتقل ہوئے ہیں۔ اور اس نے خاص طور پر سرحد کے ساتھ لگنے والے علاقوں پر اثر ڈالا ہے جس میں مغربی بنگال، آسان، تری پورا، میگھالایا، مزورام شامل ہیں۔
بنگلہ دیش کی جنگِ آزادی کے دوران انڈیا جانے والے زیادہ تر ہندو تھے لیکن بعد میں بڑی تعداد میں مسلمان بھی ان میں شامل ہو گئے۔ 1971 سے 1991 تک آسام میں مسلمان آبادی 35 لاکھ سے بڑھ کر 63 لاکھ پہنچ گئی اور اس نے یہاں پر تنازعات شروع کر دیے۔ مقامی آبادی کی شکایت تھی کہ ان کی شناخت اور کلچر خطرے میں ہیں۔
بڑے پیمانے پر 1982 میں بنگلہ دیش مخالف مظاہرے شروع ہو گئے۔ مسلح جتھوں نے ہزاروں غیرآسامیوں کو قتل کیا۔ مارے جانے  والوں میں سے زیادہ تر مسلمان تھے۔ اس وقت اندرا گاندھی نے تجویز کیا کہ اس سرحد پر خاردار تار لگائی جائے۔ یہی وعدہ ان کے بعد آنے والی راجیو گاندھی کی حکومت نے کیا۔
آسام کی زمین کا جغرافیہ اس کام کو تقریبا ناممکن کر دیتا ہے کہ سرحد کو بند کیا جا سکے۔ بنگلہ دیش کے ساتھ اس کی سرحد محض 163 میل کی ہی ہے۔ اس میں دریائے براہمپترا بھی ہے جہاں ہر سال سیلاب آتا ہے اور دریا راستہ بدلتا ہے۔
آسام کی آبادی 1971 میں ڈیڑھ کروڑ تھی۔ اب یہ دگنی سے زائد ہو کر کر ساڑھے تین کروڑ ہو چکی ہے جس میں بنگلہ دیش سے آنے والے شامل ہیں۔ ہندو قوم پرستوں کا کہنا ہے کہ 2060 تک یہاں مسلمان اکثریت میں ہوں گے۔ اس کے علاوہ 2017 کی مردم شماری کے مطابق آسامی نسل کے لوگ اب ریاست میں نصف سے کم رہ گئے ہیں۔
انڈین پارلیمان نے 1985 میں آسام معاہدے کا قانون منظور کیا۔ اس پر قومی اور صوبائی حکومت کے علاوہ ان لوگوں کا بھی اتفاق جنہوں نے اس سے تین سال قبل پرتشدد مظاہروں میں حصہ لیا تھا۔ اس قانون کا مقصد باہر سے آنے والوں کو واپس کرنا تھا۔ اس کے مطابق 1971 سے قبل آنے والے کچھ شرائط کے مطابق رہ سکتے تھے جبکہ وہ لوگ جو کہ 25 مارچ 1971 کے بعد آئے تھے، انہیں واپس جانا تھا۔ (پچیس مارچ وہ تاریخ تھی جب پاکستانی فوج نے بنگلہ دیش کے شہریوں کے خلاف بڑے فوجی آپریشن کا آغاز کیا تھا)۔
اس قانون نے کوئی خاص کام نہیں کیا۔ جنگ کے دوران آنے والے ایک کروڑ افراد میں سے اکثریت انڈیا میں ہی رہی جبکہ مزید لوگ آتے رہے۔
اس وجہ سے سرحدی باڑ لمبی ہوتی گئی، اونچی ہوتی گئی اور مزید ٹیکنالوجی لگائی جاتی رہی۔ مرکزی حکومت کی توجہ دیوار کی تعمیر پر رہی جبکہ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق اس صدی کی پہلی دہائی میں انڈیا کی بارڈر سیکورٹی فورس نے سرحد پار کرنے کی کوشش کرنے والے 900 بنگلہ دیشیوں کو ہلاک کیا۔
جو لوگ سرحد پار کرنا چاہیں، ان میں سے زیادہ تر کر ہی لیتے ہیں۔ ایک بار انڈیا پہنچ جائیں تو قانونی مشکلات کا شکار ہوتے ہیں۔ انڈیا میں پناہ گزینوں یا مہاجرین کے لئے کوئی پروگرام نہیں۔  جبکہ اگر انڈیا کسی کو واپس بھیجنا چاہے تو بغیر دستاویز والے کسی شخص کو بنگلہ دیش لینے کو تیار نہیں ہوتا۔ اور یہ دونوں ممالک کے درمیان ایک مستقل تنازعہ رہا ہے جس کا اثر علاقائی سیاست پر ہے۔
یہ مسئلہ مغربی بنگال میں زیادہ مشکل ہے جہاں پر زبان کے لہجے اور چہرے مہرے کی بنیاد پر تفریق نہیں کی جا سکتی۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں