انڈیا کی سیاست میں ایک اور بحث بھی ہے۔ آیا بنگلہ دیشی ہندوؤں کو انڈیا کی شہریت دی جائے؟ جب بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت آئی تو اس کے منشور میں اور سیاسی بیانیے میں اس کا جواب اثبات میں تھا۔ اگرچہ اقتدار میں آنے کے بعد اس پر محتاط رویہ رکھا۔
انڈیا میں مہاجرین کے مسئلے کو کئی لوگ قومی سلامتی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے امیت شاہ نے 2017 میں اس پر الزام پاکستان میں لگایا جن کے مطابق پاکستان ایسی ہجرت کو سپورٹ کر رہا ہے اور اس کے ذریعے سینکڑوں دہشتگرد بھی انڈیا میں داخل کر رہا ہے۔ اور انڈیا میں مذہبی فسادات چھیڑنا چاہتا ہے۔ اس “تھیوری” کے مطابق اصل مقصد مستقبل میں “بانگو بھومی” کی ریاست کا قیام ہے جو کہ انڈیا کو کمزور کرنے کے لئے مغربی بنگال میں بنی آزاد ریاست ہو گی۔ اگرچہ ایسے کوئی شواہد نہیں لیکن یہ آسام اور مغربی بنگال کے حوالے سے ایک خوف کا بتاتا ہے۔ بنگلہ دیش میں بانگو بھومی کے بارے میں ایسی تھیوری کو پسند نہیں کیا جاتا اور نہ ہی انڈیا کی طرف سے باڑ بنانے کے اس کام کو۔
کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس دیوار پر اگرچہ بھاری خرچہ تو کیا گیا ہے اور کیا جا رہا ہے لیکن مہاجرین کی روک تھام کے بارے میں کوئی خاص اثر نہیں ہوتا۔ جبکہ اس نے بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات بگاڑنے کا کام ہی کیا ہے۔
یہاں پر ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ بنگلہ دیش ماحولیاتی تباہی کا شکار ہے۔ یہ بہت گنجان آباد ملک ہے اور آبادی بڑی رہی ہے۔ سینکڑوں دریا ہیں جن میں ہر سال طغیانی لاکھوں لوگوں کو بے گھر کرتی ہے۔ درجہ حرارت بڑھنے سے اگر سمندری سطح بڑھتی ہے تو بنگلہ دیش کے پاس اس کا دفاع نہیں۔ ایک اندازہ ہے کہ اس صدی کے آخر تک عالمی درجہ حرارت دو ڈگری سینٹی گریڈ بڑھ سکتا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو سمندری سطح تین فٹ اونچی ہو سکتی ہے۔ اور اس کا مطلب یہ ہو گا کہ بنگلہ دیش کا بیس فیصد حصہ زیرِسمندر جا سکتا ہے۔ ہمالیہ میں برف پگھلنے کی وجہ سے زمین کی زرخیزی متاثر ہو رہی ہے جس کے نتیجے میں لوگ دیہات سے شہروں کا رخ کر رہے ہیں جو مزید لوگوں کا بوجھ برداشت کرنے سے قاصر ہیں۔ ان عوامل کی بنیاد پر اگر مستقبل میں دیکھا جائے تو بنگلہ دیش اور انڈیا کی سرحد کا مسئلہ آسان نہیں رہے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
بنگلہ دیش کو ایک اور سرحد پر مسئلہ ہے جو کہ میانمار کی ہے۔ یہاں پر روہنگیا کا علاقہ ہے۔ بدھ اکثریت کے علاقے میں مسلمان اقلیت ہیں۔ ساڑھے سات لاکھ مسلمان اراکان کے علاقے میں رہائش پذیر ہیں۔ نسلی طور پر یہ جنوبی بنگلہ دیش میں چٹاگانگ میں رہنے والوں سے قریب تر ہیں اور میانمار میں مسائل کا شکار ہیں۔ انہیں میانمار کی طرف سے شہری کے طور پر قبول نہیں کیا جاتا۔ 1982 میں میانمار کے فوجی حکمران نے شہریت کا قانون بنایا جس میں 135 قومیتوں کی فہرست تھی جو ملک میں اس وقت سے آباد ہیں جب 1823 میں برٹش اراکان تک نہینں پہنچے تھے۔ اگرچہ اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ روہنگیا میں یہ لوگ ساتویں صدی سے آبادی ہیں لیکن فوجی حکمرانوں نے فیصلہ کیا کہ یہ لوگ میانمار سے تعلق نہیں رکھتے۔ نہ ہی انہیں شہری حقوق حاصل ہیں، نہ سفر کر سکتے ہیں، نہ کاروبار کر سکتے ہیں۔ نہ ہی شادیاں رجسٹر کر سکتے ہیں اور نہ ہی اولاد کو۔ ان کے لئے فرار ہو کر جانے کی جگہ بنگلہ دیش ہے کیونکہ انہیں اپنے ملک میں فوج کی طرف سے تشدد، قتل، ریپ اور جبری مشقت کا خطرہ ہے۔ ڈھائی لاکھ لوگ 1990 کی دہائی میں بنگلہ دیش پہنچے۔ ابتدا میں بنگلہ دیش نے انہیں جگہ دی لیکن پھر جب تعداد بڑھنے لگی تو ساتھ ہی پالیسی بھی۔ دسیوں ہزار لوگوں کو واپس زبردستی میانمار بھیجا گیا۔ نئی رجسٹریشن روک دی گئی۔ بنگلہ دیش کا کہنا تھا کہ وہ دنیا کا غریب ترین ملک ہے۔ لاکھوں مزید افراد کا بوجھ نہیں سہار سکتا۔
اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے کمیشن نے میانمار کے جنرلوں سے مطالبہ کیا کہ وہ روہنگیا کو حقوق دیں۔ اس کا باضابطہ طور پر جواب میانمار کی حکومت نے دیا۔ “روہنگیا میانمار کے باشندے نہیں۔ ان کی نسل الگ ہے۔ زبان الگ ہے۔ مذہب الگ ہے۔ یہ اجنبی ہیں”۔ روہنگیا کے خلاف مظالم جاری رہے۔ دیہاتوں کو آگ لگائی گئی۔ مساجد جلائی گئیں۔ اس نے خاص طور پر اس وقت شدت اختیار کر لی جب اگست 2017 میں روہنگیا کی طرف سے بارڈر پولیس پر حملہ کیا گیا۔ اس کے بعد بنگلہ دیش میں داخل ہونے والوں کی تعداد میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہو گیا۔ چھ لاکھ روہنگیا 2017 کے دوسرے نصف میں نقل مکانی کر رہے تھے۔
اس وقت بنگلہ دیش میں تیرہ لاکھ سے زائد روہنگیا آباد ہیں۔ ان کی بڑی تعداد اقوام متحدہ کے قائم کردہ پناہ گزین کیمپوں میں ہے یا پھر بنگلہ دیش کے ساحل شہر کاکس بازار میں۔ ایک غریب اور گنجان آباد ملک کے لئے یہ بڑا مسئلہ ہے۔ اور چونکہ ان کے پاس کام کرنے کا کوئی قانونی طریقہ نہیں، اس لئے جرائم میں ملوث ہونے کی شرح بھی زیادہ ہے۔ اس وجہ سے بنگلہ دیش میں اگرچہ روہنگیا سے ہمدردی پائی جاتی ہے لیکن اسکے شہریوں کی طرف سے سرحدی کنٹرول زیادہ سخت کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ ایک اور خوف یہ ہے کہ انتہاپسندی اور دہشتگردی جڑ نہ پکڑ لے۔
بنگلہ دیش مہاجرین کو واپس کرنا چاہتا ہے۔ میانمار اس میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔ دو سو سے زیادہ روہنگیا دیہات نذرِ آتش کئے جا چکے ہیں۔
اس مسئلے کا حل فی الوقت موجود نہیں۔ یہ اس علاقے میں کشیدگی اور عدم استحکام کا باعث رہے گا،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Post Top Ad
جمعہ، 6 دسمبر، 2024
Tags
Divided#
Share This
About Wahara Umbakar
علم کی تحریریں۔ مجھے امید ہے کہ میری یہ کاوش آپ سب کو پسند آئے گی اگر آپ نے میری اس کاوش سے کچھ سیکھا ہو یا آپ کے لئے یہ معلومات نئی ہوں تو اپنی رائے کا اظہار ضرور کیجیئے گا۔ شکریہ
۔
وہارا امباکر
لیبلز:
Divided
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں