برصغیر کو اکیسویں صدی میں انسان کی بنائی سرحدوں اور باڑوں کے مسئلے کا سامنا ہے جو کہ تاریخ کا احترام نہیں کرتیں۔
آسام کے شمال میں راخین پہاڑ انڈیا اور میانمار کو الگ کرتے ہیں اور یہاں پر گھنا جنگل ہے۔ یہاں سے لوگ انڈیا کی طرف پناہ لینے کے لئے مشکل سفر کر کے آتے رہے ہیں۔ یہ تعداد میں اتنے زیادہ نہیں رہے کہ قومی مسئلہ ہو۔ زیادہ مسئلہ میانمار کے ناگا قبیلے کے ساتھ ہے جو کہ انڈیا اور میانمار میں تقسیم ہیں اور ریاست سے بغاوت کا علم بلند کرتے ہیں۔ اس سرحد پر باڑ لگائی گئی ہے۔ یہ انڈیا نہیں بلکہ میانمار کی طرف سے لگائی گئی ہے۔
ناگا جنگلی پہاڑیوں میں قبائل کا گروہ ہے۔ ان میں کئی زبانیں بولی جاتی ہیں جو کہ ناگا کی زبان کے ہی لہجے ہیں لیکن نہ ہی انہیں باہر والا کوئی سمجھ پاتا ہے اور آپس میں ایک دوسرے کی زبانیں بھی نہیں سمجھی جاتیں، لیکن ان قبائل میں ثقافتی طور پر یکسانیت پائی جاتی ہے۔ کچھ قبائل نے چند دہائیوں قبل مسیحیت اختیار کر لی تھی جبکہ کئی اپنی پرانی رسوم پر قائم ہیں۔ نہ ہی خود کو انڈیا کا حصہ سمجھتے ہیں اور نہ ہی میانمار کا۔
جب انڈیا 1947 میں قائم ہوا اور اس سے اگلے سال برما، تو ناگا کو نئی سرحدوں نے تقسیم کر دیا۔ 1950 کی دہائی میں یہاں مسلح جدوجہد شروع ہو گئی۔ انڈیا میں نئی دہلی سے آزادی کی تحریک شروع ہوئی۔ 1963 میں ناگالینڈ کی ریاست قائم ہونے پر یہ ٹھنڈی پڑی لیکن ختم نہیں ہوئی (ناگالینڈ انڈیا کی سب سے چھوٹی ریاست ہے)۔ 1970 کی دہائی میں میانمار میں مسلح بغاوت چھڑ گئی۔ اس وقت سرحد کے دونوں طرف تیس لاکھ کے قریب ناگا ہیں۔ قوم پرست اپنے لئے الگ اور متحد ملک کا مطالبہ کرتے ہیں۔
میانمار کو اپنے اندرونی حالات کی وجہ سے ہر وقت مختلف شورشوں کا سامنا رہتا ہے۔ ناگا کو یہاں پر تربیت لینے کی اچھی جگہ مل گئی جہاں سے سرحد پار حملے کئے جا سکیں۔ انڈیا کی حکومت، ناگالینڈ، آسام اور منی پور کی ریاستوں کو اس سے بڑی تشویش تھی۔ 2015 میں ایک ایسے حملے میں اٹھارہ انڈین فوجی مارے گئے۔ انڈیا نے اس کا فوری جواب دیا۔ رات کے وقت سرحد پار کر کے بڑا آپریشن ہوا۔ ہیلی کاپٹروں سے انڈین کمانڈو اتارے گئے جو کہ کئی میل اندر گھس گئے اور ناگا کے تربیتی کیمپوں پر حملہ کیا گیا۔ انڈیا کا دعویٰ ہے کہ اس نے اڑتیس ناگا باغیوں کو ہلاک کیا (اگرچہ یہ اعداد و شمار متنازعہ ہیں)۔
میانمار کی فوجی حکومت نے اس حملے پر بظاہر تو غم و غصے کا اظہار کیا لیکن نجی طور پر یہ دکھاوے کا تھا۔ تاہم، انڈیا نے غیردانشمندانہ فیصلہ یہ کیا کہ اس کو بڑی کامیابی دکھا کر بڑھا چڑھا کر اس کا ڈھنڈورا پیٹا۔ میانمار کو اسے نظرانداز کرنا مشکل ہو گیا۔
انڈیا نے فوجی آپریشن جاری رکھے اور میانمار کو 2017 میں یہاں پر باڑ لگانا پڑی۔ انڈیا اس کے لئے سالانہ پانچ ملین ڈالر دیتا ہے۔ حکومت کہتی ہے کہ یہ دہشتگردوں کو روکنے کے لئے ہے لیکن اس نے عام آدمی کی زندگی پر اثر ڈالا ہے اور خاندانوں کو تقسیم کر دیا ہے۔ اس سے قبل میانمار اور انڈیا کے “آزاد نقل و حرکت” کے تحت معاہدے قبل ناگا کو اجازت تھی کہ سرحد کی دوسری طرف دس میل تک ویزے کے بغیر جا سکتے تھے۔ اس معاہدے کی وجہ سے سرحد پر منڈیاں قائم تھیں جہاں پر میانمار کے ناگا انڈیا کی مصنوعات خرید سکتے تھے۔ بہرحال، اس باڑ نے ان لوگوں کو تقسیم کر دیا ہے جو کہ نہ ہی خود کو انڈین سمجھتے ہیں اور نہ ہی میانمار کے، بلکہ ناگا کہلاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انڈیا کی کئی سرحدوں پر کسی رکاوٹ کھڑی کرنے کی ضرورت نہیں۔ انڈیا اور بھوٹان کے قریبی تعلقات ہیں۔ بھوٹان کی تجارت 98 فیصد انڈیا کے ساتھ ہی ہے اور اس سرحد پر کسی رکاوٹ کی ضرورت کسی فریق کو محسوس نہیں ہوتی۔
انڈیا کے نیپال کے ساتھ تعلقات کبھی کشیدہ ہو جاتے ہیں۔ 2015 میں چار ماہ تک سرحد بند رکھی گئی تھی۔ لیکن اس کی ایک ہزار میل کی سرحد پر کسی رکاوٹ کی ضرورت نہیں رہی۔ انڈیا کا اس ملک میں اثر و رسوخ ہے۔
چین کے ساتھ انڈیا کی طویل سرحد ہے۔ اس میں قدرتی رکاوٹ ہمالیہ کے پہاڑ ہیں جو کہ اس ڈھائی ہزار میل سرحد کے بیشتر حصے پر بلند دیوار کا کام کرتے ہیں۔ دونوں کے درمیان بڑا سرحدی تنازعہ اروناچل پردیش کی انڈین ریاست ہے جس پر چین کا دعویٰ ہے لیکن اس وجہ سے سرحدی کشیدگی نہیں رہی۔ چین اس سرحد کی نگرانی درجنوں سیٹلائیٹ کی مدد سے آسمان سے کرتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Post Top Ad
جمعہ، 6 دسمبر، 2024
Tags
Divided#
Share This
About Wahara Umbakar
علم کی تحریریں۔ مجھے امید ہے کہ میری یہ کاوش آپ سب کو پسند آئے گی اگر آپ نے میری اس کاوش سے کچھ سیکھا ہو یا آپ کے لئے یہ معلومات نئی ہوں تو اپنی رائے کا اظہار ضرور کیجیئے گا۔ شکریہ
۔
وہارا امباکر
لیبلز:
Divided
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں