باتیں ادھر ادھر کی

Post Top Ad

جمعہ، 6 دسمبر، 2024

دیواریں (20) ۔ برصغیر


انڈیا اور پاکستان کی سرحد دنیا میں “گرم” ترین سرحدوں میں سے ہے۔ دونوں ممالک کی تعلقات کی کشیدگی ان ممالک کی پیدائش کے وقت سے ہے۔ انڈیا نے کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر 340 میل لمبی ڈبل باڑ لگائی ہے جو کہ بارہ فٹ اونچی ہے اور بنگلہ دیش انڈیا کی سرحد کی طرح ہائی ٹیک آلات سے لادی گئی ہے۔ اس کے علاوہ بارودی سرنگیں بھی نصب کی گئی ہیں۔
کشمیر کا مسئلہ 1947 میں شروع ہو کر کئی جنگوں کا سبب بنا ہے اور ممالک کے درمیان تعلقات کی تلخی کی جڑ ہے۔
انڈیا پاکستان سرحدی باڑ کے پراجیکٹ پر کئی دہائیاں لگی ہیں۔ پنجاب اور راجستھان کے بڑے حصے میں 1980 اور 1990 کی دہائی میں باڑ تعمیر کی جا چکی تھی۔ بحیرہ عرب سے ہمالیہ تک اس میں اضافہ کیا جاتا رہا ہے۔ سرحد کا کچھ حصہ قدرتی طور پر پار کرنا مشکل ہے۔ اس میں دلدل، صحرا اور پہاڑ شامل ہیں۔
ہر تین میل پر کنٹرول روم ہیں۔ اس میں تھرمل امیجنگ، نائٹ وژن اور دیگر سنسر سے آنے والے سگنلز کو دیکھا جاتا ہے۔ دو لاکھ فلڈلائٹ ہیں۔ اور جہاں پر آبی گزرگاہیں ہیں، وہاں پانی کے نیچے لیزر سنسر نصب کئے گئے ہیں۔ نگرانی کڑی رکھنے کے لئے ڈرون اڑتے رہتے ہیں۔ پاکستان نے اس پر تنقید کی ہے لیکن انڈیا نے اس کو نظرانداز کر کے یہ باڑ بنائی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کی مغربی سرحد افغانستان کے ساتھ 1510 میل لمبی ہے۔ برٹش حکومت نے برٹش سلطنت کی حدود طے کرنے لئے لئے برٹش نے مغرب کی طرف حدبندی کی تھی۔ یہ سرحد 1893 میں بنائی گئی اور ڈیورنڈ لائن کہلائی۔ یہ ڈیورنڈ اور افغان امیر عبدالرحمان خان کے درمیان اتفاق سے کھینچی گئی تھی۔ افغانستان ملک کی تخلیق برٹش انڈیا اور روسی وسطی ایشیا کے درمیان بفر زون قائم کرنا تھا۔
یہ سرحد مشکل رہی ہے۔ اس کے دونوں اطراف میں پشتون ہیں اور سب نے اس سرحد کو تسلیم نہیں کیا۔ کابل سرکاری طور پر اس کو تسلیم نہیں کرتا اور پاکستان کے بڑے علاقے پر دعویٰ کرتا رہا ہے۔
یہ وجہ ہے کہ پاکستان کی ترجیح کمزور افغانستان کی ہے۔ اس کے لئے پاکستان ملٹری نے کردار ادا کیا ہے البتہ اس کی انہیں بڑی قیمت بھی دینا پڑی ہے۔
سرحد پر حالات اس قدر خراب ہو گئے تھے کہ پاکستان نے 2017 میں یہاں باڑ لگانے کا فیصلہ کیا۔ یہ قبائلی علاقوں کے دو ڈسٹرکٹ میں لگائی جانی تھی۔ پاکستان نے اس کی تعمیر تو کر لی لیکن اس سے کسی بھی چیز کو روکنے میں مدد نہیں کی۔ یہ باڑ دشوار اور پہاڑی زمین پر ہے۔
ڈیورنڈ لائن کے جنوب میں پاکستان اور ایران کی سرحد ہے۔ یہاں پر دیوار بنانے کا کام ایرانی کر رہے ہیں۔ دس فٹ اونچی اور تین فٹ موٹی کنکریٹ کی دیوار بنائی جا رہی ہے۔ اسکی ایک وجہ منشیات کی سمگلنگ روکنا ہے، دوسری وجہ انتہاپسند تنظیموں کو ایران میں داخل ہونے سے روکنا ہے۔ اگرچہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات دوستانہ رہے ہیں لیکن ایران نے دیوار بنا کر سرحد محفوظ کرنے کو ترجیح دی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
برصغیر میں بنی سب دیواریں ایسے کسی خواب کی نفی کرتی ہیں جس میں برصغیر میں شہریوں کی آزادانہ نقل و حرکت ہو سکے۔ اگرچہ انڈیا مختلف وقتوں میں نیپال، میانمار، بھوٹان اور بنگلہ دیش کے ساتھ ایسے منصوبوں پر بات کرتا رہا ہے کہ سفر اور تجارت آسان ہو سکے۔ سڑک اور ریلوے بچھائی جا سکیں۔ اور یورپی یونین کی طرز کے ماڈل کی طرف جایا جا سکے۔لیکن اس میں کوئی پیشرفت ہونے کا جلد امکان نہیں لگتا۔
خطے میں سب سے مشکل سرحد اور گہری تقسیم پاکستان اور انڈیا کی ہے۔ انڈیا جمہوری ملک ہے جس میں ہندو نیشنلزم غالب ہوا ہے۔ پاکستان اندرونی مسائل سے دوچار ایک فوجی آمریت ہے۔ ان کے درمیان تقسیم کم ہونے کی امید اس وقت کسی کو نہیں ہے۔   
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

میرے بارے میں