باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعہ، 6 دسمبر، 2024

دیواریں (21) ۔ افریقہ


افریقہ کے شمال میں ایک دیوار ہے۔ یہ ریت، ندامت اور خاموشی کی ہے۔
مراکو کی دیوار 1700 میل لمبی ہے۔ یہ مغربی صحارا اور مراکو میں سے گزرتی ہے۔ یہ مراکو کے جنوبی صوبوں کو صحرا سے الگ کرتی ہے۔ اس علاقے کو صحراویون عرب “عوامی جمہوریہ الصحراویہ” کہتے ہیں جو کہ ان کی نظر میں آزاد ریاست ہے۔ یہ دیوار سات فٹ اونچی اور ریت سے بنی ہے۔ اس کے ساتھ خندق ہے اور دسیوں لاکھ باردوی سرنگیں بچھی ہوئی ہیں۔ یہ دنیا میں سب سے لمبا باردوی سرنگوں کا فیلڈ ہے۔
ہر تین میل کے بعد مراکو کی فوجی چوکی ہے جہاں پر چالیس کے قریب فوجی تعینات ہوتے ہیں۔ کئی چوکیوں کے درمیان گشت کرتے ہیں۔ جبکہ ہر بڑی چوکی کے پیچھے توپخانہ اور سبک رفتار موبائل یونٹ ہیں۔ دیوار پر جگہ جگہ ریڈار لگے ہیں جو کہ پچاس میل تک کے علاقے کی نگرانی کیلئے ہیں۔ اس کا مقصد صحراوی ملٹری فورس کے جنگجوؤں پر نظر رکھنا ہے۔ یہ پولیساریو فورس ہے جسے مراکو اپنے علاقے سے دور رکھنا چاہتا ہے۔
یہ رہنے کے لئے مشکل جگہ ہے۔ دن کے وقت درجہ حرارت پچاس ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے جبکہ رات کو نقطہ انجماد تک گر جاتا ہے۔ صحرا میں آندھیاں عام ہیں جو فضا کو زرد کر دیتی ہیں جس میں کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ باہر والوں کے لئے یہ ایک مشکل دنیا ہے لیکن یہاں پر رہنے والے صحراوی لوگوں کے لئے یہ گھر ہے۔
سپین نے اس علاقے سے 1975 میں انخلا کیا تھا۔ اس وقت مغربی صحارا میں آزادی کی تحریک شروع ہو چکی تھی۔ جب سپین نے علاقہ خالی کیا تو مراکو کے ساڑھے تین لاکھ لوگوں نے یہاں پر گرین مارچ کیا۔ اس علاقے میں آئے اور اسے مراکو کا حصہ بنانے کا دعویٰ کر دیا۔ سپین نے علاقے کا کنٹرول ماریطانیہ اور مراکو کے حوالے کیا۔ مراکو نے یہاں پر بیس ہزار کی فوج بھیجی اور اسے اپنا حصہ بنا لیا۔ مراکو کی فوج کو پولیساریو فورس کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ جنگ سولہ سال تک جاری رہی جس میں دسیوں ہزار انسانی جانوں کا نقصان ہوا۔ مراکو کی فوج کے پاس جدید ہتھیار اور عددی برتری تھی لیکن انہیں گوریلا جنگ کا سامنا تھا۔ مراکو نے یہاں پر دیوار بنانا شروع کر دی جسے “ندامت کی دیوار” کہا جاتا ہے۔ یہ 1987 میں مکمل ہوئی۔
اور اب یہاں پر خاموشی ہے۔ مغربی صحارا کی اس جنگ کے بارے میں کم لوگوں نے سنا ہو گا۔ اس دیوار کے دونوں اطراف میں رہنے والے صحراوی عربی کا ایک الگ لہجہ بولتے ہیں جو حسانیة کہلاتا ہے۔ ثقافتی لحاظ سے مراکو سے الگ ہیں۔ روایتی طور پر خانہ بدوش ہیں، اگرچہ اس وقت بڑی تعداد شہری زندگی گزار رہی ہے اور دسیوں ہزار لوگ پناہ گزین کیمپوں میں ہیں۔ مراکو سے یہاں پر آ کر بسنے پر حکومت کی طرف سے ترغیبات دی جاتی ہیں۔ ٹیکس میں چھوٹ، کاروبار میں سبسڈی اور ایک بار یکمشت رقم کی ادائیگی کی جاتی ہے۔  اس وجہ سے یہاں پر مراکو سے لوگ آ کر بسنے لگے اور اس نے آبادی کا نقشہ بدل دیا۔ صحراوی لوگوں کی تعداد اب دو سے چار لاکھ کے درمیان ہے۔ بیسویں صدی کے وسط تک ان کے لئے قومی سرحدوں کا تصور نہیں تھا۔ یہ وسیع علاقے پر نقل مکانی کرتے رہتے تھے جس کا انحصار بارش پر تھا۔ اب یہ بڑا علاقہ مراکو کا حصہ ہے۔ ریت پر لگائی لکیر نے صحراوی قوم کی قسمت بھی طے کر دی۔
افریقہ اس وقت ایسی لکیروں سے پیدا ہونے والے مسائل سے بھرا پڑا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آزادی کی تحریک اپنی پہچان اور خودمختاری کی جدوجہد ہوتی ہے۔ قومی ریاست کا آئیڈیا یورپ میں پیدا ہوا۔ انیسویں اور بیسویں صدی میں یہ جنگل میں آگ کی طرح پھیلا۔ ایک “قوم” کے لئے خودمختار حکومت جس کے باشندے کسی حد تک نسل، ثقافت، جغرافیہ، زبان وغیرہ مشترک رکھتے ہوں۔
جب یورپی سامراج نے افریقہ کے نقشے پر لکیریں کھینچ کر ممالک تخلیق کئے تو اس میں لوگوں، رسوم، کلچر وغیرہ کا خاص خیال نہیں رکھا گیا۔  
افریقہ میں لگ بھگ تین ہزار قبائل ہیں جن میں زبانوں، مذاہب اور کلچر کا بہت تنوع ہے۔ سب سے برے ایتھوپیا کے امہارا اور اورومو ہیں جن کے ملا کر ساڑھے پانچ کروڑ لوگ ہیں۔ نائیجیریا میں دس بڑے قبائل میں سے چار آباد ہیں۔ یوروبا، اگبو، ہواسا اور ایجا جن کی ملا کر دس کروڑ کی آبادی ہے جبکہ نائیجمریا کی آبادی ساڑھے اٹھارہ کروڑ ہے۔ زمبابوے کے شونا، جنوبی افریقہ کے زولو، گھانا کے اشانتی قبیلے بھی ایک کروڑ سے زائد آبادی کے ہیں۔ ایک اندازہ ہے کہ نائیجیریا میں ہی ڈھائی سے پانچ سو کے درمیان قبیلے آباد ہیں۔
قبائلیت کے کئی مثبت پہلو ہیں۔ اپنائیت کا احساس۔۔۔ مشترک تاریخ، ورثہ اور رواج۔۔۔ مشکل وقتوں میں سپورٹ۔۔۔ شہری آبادی میں بھی قبائلی روایات جاری رہتی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ نئی کمیونٹی بھی بنتی جاتی ہیں۔  
نئے شہر میں نووارد اس علاقے کا رخ کرتا ہے جہاں اس کی سماجی قبولیت ہو اور جہاں اسے اپنائیت لگے۔ ایسا ہمیں دنیا میں ہر جگہ نظر آتا ہے۔ ایسا عام ہے کہ وقت کے ساتھ شہر میں علاقوں میں نسل، زبان وغیرہ کی بنیاد پر تقسیم ہو جاتی ہے۔
جہاں پر قبائلیت کی مثبت چیزیں ہیں، وہاں پر بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ قبائلی عصبیت بھی ساتھ ہی لے کر آتی ہے۔ اور اگر قبائلی تعلق زیادہ مضبوط ہو تو یہ قبیلے سے باہر قومی یکجہتی میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ اور یہ افریقہ کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں