باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعہ، 6 دسمبر، 2024

دیواریں (22) ۔ افریقہ


نائیجریا کے دارالحکومت لاگوس سے چند گھنٹے مشرق کی طرف کے سفر کے بعد ڈھونڈنے سے ایک بہت بڑی دیوار کے کھنڈرات ملیں گے۔ اس کو جنگل نے اور صدیوں کے وقت نے ڈھک دیا ہے۔ خیال ہے کہ اس کی تعمیر آٹھویں صدی میں ہوئی تھی اور اس کا مقصد حملہ آوروں سے محفوظ رہنا تھا۔ گیارہویں صدی تک بینن شہر بینن کی سلطنت کا مرکز تھا۔ اور یہ مغربی افریقہ کی سب سے ترقی یافتہ سلطنت تھی۔
پرتگالی یہاں پر 1485 میں پہنچے۔ اور یہ ان کے لئے حیران کن تھا کہ یہاں کا شہر ان کے اپنے دارالحکومت لسبن سے بڑا تھا۔ یہ سمندر سے چار روز کی پیدل مسافت پر تھا۔ شہر کے گرد بہت بلند دیوار تھی جو 66 فٹ تک کی بلندی تک بھی پہنچتی تھی۔ اور بہت ہی گہری خندقیں تھیں۔ ان سب کی نگرانی شہر کے محافظ کرتے تھے۔ 1974 میں لکھی گینس بک آف ورلڈ ریکارڈز میں کہا گیا ہے کہ شہر کی اور سلطنت کی دیواریں مشینی عہد سے قبل کا دوسرا سب سے بڑا تعمیراتی سٹرکچر تھا۔ جبکہ 1990 کی دہائی میں فریڈ پیئرس کے لکھے مضمون میں کہا گیا ہے کہ “ایک وقت میں یہ دیوار، دیوار چین سے چار گنا زیادہ لمبی تھی اگرچہ اس میں میٹریل کم استعمال کیا گیا تھا۔ اندازہ ہے کہ ایک لاکھ لوگوں کے گرد بنائی گئی دیوار کی لمبائی 9940 میل تھی”۔
بینن شہر کا ڈیزائن fractal تھا۔ یہ پیچیدہ ڈیزائن ہے جس میں ایک ہی پیٹرن بڑے سے لے کر چھوٹے حصوں تک دہرایا جاتا ہے۔ شہر کے وسط میں بادشاہ کا محل تھا جو کہ بیوروکریٹک معاشرے کا مرکز تھا۔ یہاں سے تیس بڑی سڑکیں نکلتی تھیں جو ۱۲۰ فٹ چوڑی تھیں۔ ایک سڑک دوسرے سے نوے درجے کا زاویہ بناتی تھی اور اس سڑک میں سے مزید سڑکیں برآمد ہوتی تھیں۔
شہر کے گیارہ محلے تھے۔ کچھ میں روشنی دھات کی اونچی مشعلوں سے کی جاتی تھیں جن میں پام کا تیل جلتا تھا اور شہر میں کئے گئے آرٹ کے کام کو بھی روشن کرتا تھا۔ شہر میں کئی گھر دو منزلہ تھے جن کی چاردیواری سرخ مٹی سے بنائی گئی تھی۔ شہر سے باہر پانچ سو دیہات تھے جن کے گرد دیواریں بنی تھیں۔ سب ایک دوسرے سے جوڑے گئے تھے۔ قلعوں کا نظام تھا جس میں کئی دیہات اور بستیوں میں بیس چھوٹی گڑھیاں تھیں۔
پرتگال سے آنے والے مہم جو اس شہر کے آرٹ اور آرکیٹکچر سے متاثر ہوئے تھے۔ 1691 میں پرتگالی کپتان لورنسو پنٹو لکھتے ہیں، “سیدھی سڑکیں ہیں جو تاحد نگاہ سیدھی رہتی ہیں۔ بڑے گھر ہیں۔ شاہ کا محل متاثر کن ہے جس میں اونچے اور سجے ہوئے خوبصورت ستون ہیں۔ شہر امیر ہے جس کے لوگ محنتی ہیں۔ حکومت اس قدر بہترین ہے کہ چوری چکاری کا نام و نشان نہیں۔ لوگ خود کو اتنا محفوظ سمجھتے ہیں کہ گھروں میں دروازے تک نہیں لگائے جاتے”۔
مغربی افریقہ کے اس شاندار شہر کو 1897 میں برٹش نے تباہ کیا۔ برٹش اس علاقے پر کئی سال سے اپنا کنٹرول قائم کرنا چاہ رہے تھے۔ 1200 برٹش فوجیوں نے اس پر حملہ کیا۔ محل اور لوگوں کے گھروں کو آگ لگا دی۔ مذہبی نشانات اور آرٹ کے کام لوٹ لئے گئے۔ بینن سے لوٹی گئی کانسی سے بنی کئی چیزیں آج بھی دنیا بھر کے کئی میوزیم میں پائی جاتی ہیں۔ بادشاہ کو فرار ہونا پڑا۔ کچھ ماہ بعد جب بادشاہ واپس آئے تو انہیں جلاوطن کر کے جنوبی نائیجیریا بھیج دیا گیا جہاں پر 1914 میں ان کا انتقال ہوا۔
اس وقت تک شہر کی بیشتر دیواریں تباہ ہو چکی تھیں۔ برٹش نے اس کے بڑے حصوں کو بارود سے اڑا دیا تھا اور اسے “برٹش نائیجیریا” میں شامل کر لیا تھا۔ جو بچا تھا، اس کا اکثر حصہ مقامی لوگ اپنے نئے گھروں کی تعمیر کے میٹریل کے طور پر لے گئے۔ شہر ویران ہونے لگا۔ جو بچا تھا، اسے بھی بھلا دیا گیا۔ صرف مقامی آبادی کو یہ علاقہ یاد رہے تھا۔ جب آثار قدیمہ والے اس علاقے میں 1960 کی دہائی میں پہنچے تو اس کی دوبارہ دریافت کیا جس میں ان دیواروں اور خندقوں کی باقیات بھی تھیں۔
اگرچہ کم ہی چیزیں بچی تھیں لیکن یہ نوآبادیاتی دور سے پہلے کے افریقی تمدن کی ایک یادگار تھیں۔ یہ سلطنتیں اپنا تشخص رکھتی تھیں جن کو برطانوی بادشاہت نے اپنی سہولت کے لئے اکٹھا کر دیا تھا اور “برٹش نائیجیریا” کہہ دیا تھا۔ یہاں کی سرحدیں اس بنیاد پر تھیں کہ یورپی مہم جو کہاں تک گئے تھے جبکہ پہلے سے موجود سلطنتوں یا قومیتوں کو مکمل طور پر نظرانداز کر دیا گیا تھا۔ زبردستی سینکڑوں قبائل کو ایک قوم قرار دے دیا گیا تھا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں