باتیں ادھر ادھر کی

Post Top Ad

جمعہ، 6 دسمبر، 2024

دیواریں (23) ۔ افریقہ


افریقی اقوام میں جمہوریت کبھی نہیں رہی۔ قبائلی سردار اپنی رعایا پر حکومت کا نظام چلاتے تھے۔ جب نوآبادیاتی طاقتوں نے یہاں سے انخلا کیا تو لوگوں کو بتایا گیا کہ وہ ایک علاقے میں اب ایک ملک بن چکے ہیں۔ “حکمران کون؟” کا جواب حل شدہ نہیں تھا۔ اور جو حکمران بنے، انہیں بہت سے لوگوں کی نظر میں حقِ حاکمیت نہیں تھا۔ نہ صرف الگ اقوام اور قبائل کو ایک سیاسی اکائی (ملک) میں باندھ دینا اجنبی تھا بلکہ حقِ خود ارادیت، جمہوریت جیسے آئیڈیا بھی۔ اور آج کے افریقہ میں کئی تنازعات کی وجہ اچانک ہی تیزی سے پورے براعظم پر کیا جانے والا یہ سیاسی تجربہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آزاد افریقی ریاستوں کی پہلی نسل یہ بات سمجھتی تھی کہ نوآبادیاتی نقشوں کو اگر چھیڑا گیا تو سینکڑوں نئے جھگڑے اور جنگیں کھل سکتی ہیں۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ ان کو قبول کر کے آگے بڑھنا ہے۔ امید یہ تھی کہ قومی ریاستیں مضبوط ہوں گی اور نسلی تقسیم کم ہو گی۔ لیکن زیادہ تر لیڈر ایسی پالیسیاں نافذ کرنے میں ناکام رہے جو کہ لوگوں میں اتحاد و یگانگت پیدا کرتیں۔ فوجی طاقت، بندوق اور جبر کے زور پر آبادی کو اکٹھا رکھنے کی کوشش کی گئی۔ اور اس نے افریقہ کو پسماندگی کے جنجال میں پھنسا دیا۔ کئی ممالک آج تک اس سے باہر نہیں نکل پائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انگولا مغربی افریقہ کا ملک ہے جس کا رقبہ فرانس سے دگنا ہے۔ جب پرتگالی یہاں پر سولہویں صدی میں پہنچے تو یہاں پر دس نسلی گروہ تھے جو کہ تقریباً سو قبائل میں منقسم تھے۔ پرتگال نے اسے اپنی کالونی بنایا۔ یہ مزید آگے چلے جاتے اور مزید علاقہ اس کالونی کا حصہ بنا لیتے لیکن ان کا سامنا دوسرے یورپیوں سے ہوا جو کہ برطانیہ، بلجیم اور جرمن دعوے تھے۔ ان افریقی قومیتوں میں زیادہ کچھ مشترک نہیں تھا، سوائے اپنے نئے نوآبادیاتی آقاؤں سے ناپسندیدگی کے۔ یہ ناپسندیدگی اس بات کے لئے کافی تھی کہ یہ ملکر بیسویں صدی میں آزادی کی جنگ شروع کر دیں۔  1975 میں پرتگالی علاقہ چھوڑ گئے اور اپنی تخلیق کو پیچھے چھوڑ گئے۔ یہ تخلیق انگولا کا ملک تھا جسے اب ایک قومی ریاست کے طور پر کام کرنا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انگولا میں بسنے والی ایک قومیت باکونگو ہیں۔ ان کی زبان ککونگو ہے۔ یہ بانتو زبان ہے۔ کالونیل دور سے قبل ان کی سلطنت جن علاقوں پر پھیلی تھی، یہ موجودہ انگولا، کانگو اور گابون کا حصہ ہیں اور ان کی ایک کروڑ کی آبادی ہے۔ کانگو میں یہ سب سے بڑی قومیت ہیں جبکہ انگولا میں یہ اقلیت ہیں۔ اور اس وجہ سے “بنڈد دیا کونگو” تحریک شروع ہوئی جو کہ تینوں ممالک میں موجود ہے۔ ان کا مطالبہ ککونگو زبان بولنے والوں کے لئے اپنے الگ ملک کا قیام ہے۔ اور ایسا ہی افریقہ میں ہر جگہ موجود ہے۔
جو فیڈریشن یورپیوں نے تخلیق کیں، اس میں مقامی آبادی کا اتفاق نہیں تھا۔ اور جب یورپیوں کو اٹھا کر پھینکنے میں کامیابی ہوئی تو انہیں اس نئے نظام سے وفاداری نہیں تھی۔ کئی جگہوں پر سیاسی نظام میں کامیابی ہوئی لیکن جہاں پر سیاست ناکام ہوئی، وہاں پر خانہ جنگی اور مسلح علیحدگی پسند تحریکوں نے ملک کو لپیٹ میں لے لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
کیمرون اور نائیجریا میں 1994 میں سرحدوں پر جھگڑا شروع ہوا۔ دونوں ممالک کا ایک جزیرہ نما پر دعویٰ ہے جو کہ باکاسی کا علاقہ ہے اور یہاں سے تیل نکلتا ہے۔ بات بڑھ کر مسلح جھگڑے تک پہنچ گئی۔ پھر باکاسی حقِ خود ارادیت کے نام پر تحریک شروع ہو گئی جو کہ BSDF ہے۔ اس نے اپنا ریڈیو سٹیشن کھول لیا۔ اپنی فورس قائم کر لی۔
کیمرون کے دیگر مسائل بھی ہیں۔ یہاں کی آبادی میں سے 23 ملین فرنچ بولتے ہیں جبکہ ایک اقلیت ہے جس کے 5 ملین انگریزی بولتے ہیں۔ اقلیت کو شکایت ہے کہ ان سے تعصب رکھا جاتا ہے۔ یہ مغربی صوبے ہیں جو نائیجیریا سے متصل ہیں اور اب اپنے حقوق کی آواز اٹھا رہے ہیں۔ ان کا ایک جلاوطن “صدر” بھی ہے۔ اپنا جھنڈا ہے اور اپنا ترانہ بھی ہے۔ اگر یہ دونوں الگ ہو کر “جنوبی کیمرون” نامی ملک بنا لیتے ہیں (جس کا امکان اس وقت نہیں) تو یہ اس کا قومی جھنڈا اور ترانہ ہو گا۔
ایسی بھی کئی دیگر مثالیں ہیں۔ سینیگال کے جنوب میں کاسامانسی کا صوبہ اپنی آزادی کیلئے لڑ رہا ہے۔ کینیا میں مومباسا ری پبلک کونسل ملک کے ساحلی علاقے کو الگ کرنے کیلئے۔ ان کا نعرہ “پوانی سی کینیا” ہے جس کے معنی ہیں کہ “ساحل کینیا کا نہیں”۔
ان علیحدگی پسند تحریکوں کی وجہ سے ایتھوپیا کو اریٹریا الگ کرنا پڑا تھا جبکہ جنوبی سوڈان 2011 میں سوڈان سے الگ ہوا۔ لیکن اس وقت فریقہ میں جاری متعدد علیحدگی پسند تحریکوں میں سے کسی کی کامیابی مستقبل قریب میں نہیں ہو گی۔ ایتھوپیا میں بھی ابھی اوگاڈن اور ارومیا علاقوں میں علیحدگی کی تحریکیں جاری ہیں۔ جبکہ جنوبی سوڈان کی علیحدگی کے بعد حالات بہتر ہونے کے بجائے مزید خراب ہو گئے۔ جنوبی سوڈان میں ڈنکا اکثریت تھی جس نے سوڈان سے آزادی لی تھی لیکن آزاد ہو جانے کے بعد جلد ہی ڈنکا قبیلے سے جنوبی سوڈان کے اقلیتی قبائل کی شکایات شروع ہو گئیں۔ نوئیر، اچولی اور دیگر قبائل نے علم بغاوت بلند کر دیا اور جنوبی سوڈان خانہ جنگی کا شکار ہو گیا۔ اس میں لاکھوں جانیں جا چکی ہیں اور دسیوں لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

میرے بارے میں