باتیں ادھر ادھر کی

Post Top Ad

جمعہ، 6 دسمبر، 2024

دیواریں (24) ۔ افریقہ


افریقہ کی حالیہ تاریخ بدترین خانہ جنگی کے واقعات سے پُر ہے۔ نائیجیریا میں اگبو آبادی کا قتل عام ہوا جس نے خانہ جنگی شروع کر دی جو کہ 1967 سے 1970 تک رہی۔ ری پبلک آف بیافرا نام سے آزاد ریاست بھی کچھ عرصہ قائم رہی۔ کل ملا کر تیس لاکھ افراد قتل ہوئے۔ بیافرا کا مسئلہ ابھی بھی نائیجریا میں موجود ہے۔ برونڈی میں 85 فیصد آبادی ہوٹو ہے جبکہ 14 فیصد ٹوٹسی اقلیت ہے جو کہ سیاسی اور معاشی لحاظ سے طاقتور ہے۔ دونوں کے درمیان کے تنازعات ملک میں انتشار کا باعث ہیں۔ 1965 میں بادشاہ کا تخت الٹانے کی کوشش کی گئی۔ بادشاہ ٹوٹسی تھے۔ اس نے ملک میں نسلی فسادات کا سلسلہ شروع کر دیا جس میں پانچ ہزار لوگ ہلاک ہوئے۔ 1972 میں ایک اور قتل عام ہوا جس کے ردعمل میں زائرے میں مقیم ہوٹو نے برونڈی پر حملہ کر دیا۔ اگلے چار برس میں دو لاکھ ہلاکتیں ہوئیں۔ اگلی دہائی میں وقتا فوقتا فسادات ہوتے رہے۔ 1993 میں بڑے پیمانے پر خانہ جنگی شروع ہو گئی جو کہ 2005 تک رہی۔ اس بار اس خانہ جنگی کے شروع ہونے کی وجہ صدر ملچیور نڈادائے کی ہلاکت تھی۔ یہ ہوٹو تھے جنہیں ٹوٹسی نے نشانہ بنایا تھا۔ حالیہ برسوں میں کم شدت کی جھڑپیں ہوتی رہی ہیں۔ اس وجہ سے چار لاکھ شہریوں نے ملک چھوڑا ہیں جن میں سے اکثریت نے تنزانیہ کا رخ کیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روانڈا میں 1994 میں ہونے والے قتل عام کے نتیجے میں آٹھ لاکھ ٹوٹسی اور معتدل ہوٹو ہلاک ہوئے۔    
جمہوریہ کانگو میں دو سو سے زائد قومیتیں آباد ہیں اور 1996 سے یہاں پر بدترین فسادات جاری ہیں۔ اندازہ ہے کہ ان میں ساٹھ لاکھ افراد مارے جا چکے ہیں۔
لائبیریا اور انگولا میں بھی بڑے پیمانے پر فسادات کا سامنا رہا ہے۔ ان کے پیچھے وجوہات پیچیدہ ہیں۔ سرحدوں کا نفاذ، معاشی پسماندگی اور غربت جیسے عوامل نسلی تفاوت کی آگ میں تیل کا کردار ادا کرتے ہیں۔ چونکہ قومیتیں بین الاقوامی سرحدوں کے آر پار پھیلی ہوئی ہیں، اس لئے یہ تنازعات جلد ہی ایک ملک سے دوسرے میں منتقل ہو جاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قبائلیت اپنے ساتھ ایک سیاسی مسئلہ لے کر آتی ہے جو کہ میرٹ کے بجائے اقرباپروری کی حوصلہ افزائی اور کرپشن ہے۔ یہ مسئلہ پورے افریقہ میں عام ہے۔ کینیا کے صابق صدر اسے “افریقہ کا کینسر” کہتے ہیں جو کہ بہت سی چیزوں کو متاثر کرتا ہے۔ سیاسی تقرریاں، کاروباری سودے اور قانونی فیصلوں میں اس کا اثر ہوتا ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ یہ قومی یکجہتی کو متاثر کرتی ہے۔ اور یہ ملک کی معیشت کے لئے نقصان کا سبب بنتا ہے۔ معاشی ترقی، انفراسٹرکچر یا دیگر عوامی منصوبوں کے لئے فنڈز طاقتور افراد کی جیب میں جاتے ہیں۔ اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ افریقہ میں ہر سال پچاس ارب ڈالر کرپشن کی نذر ہو جاتے ہیں۔
پارلیمان اور حکومتی فیصلوں میں میرٹ سے ہٹ کر فیصلے سیاسی انتشار کی بنیاد بھی بنتے ہیں۔
کچھ ممالک نے اس بارے میں کچھ کامیابی حاصل کی ہے۔ گھانا کے کوانے نکروما نے قبائلیت کی بنیاد پر سیاسی جماعتوں پر پابندی ہگائی۔ آئیوری کوسٹ میں صدر فیلکس بوگنے اپنے 33 سالہ دور حکومت میں علاقائی مسائل پر قابو پانے میں کامیاب رہے۔ بوٹسوانا میں استحکام رہا ہے۔ جمہوریت کامیابی سے چلتی رہی ہے اور اسی وجہ سے معاشی ترقی بھی رہی ہے۔ تنزانیہ میں سو سے زیادہ قبائل ہیں لیکن قبائلیت کا مسئلہ نہیں۔ تنزانیہ کے پہلے صدر جولیس نارارے نے قومی شناخت بنانے پر بہت زور دیا تھا۔ انہوں نے تمام علاقائی زبانوں کو چھوڑ کر سواہلی زبان اپنائی جو کہ اس وقت ملک کی آبادی کو جوڑنے والی گوند کا کام کرتی ہے۔



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

میرے بارے میں