افریقہ میں غربت عالمی معیار سے زیادہ ہے۔ گلوبلائزیشن نے کروڑوں لوگوں کو غربت سے نکالا ہے لیکن امیر اور غریب کے فرق کو بھی زیادہ کر دیا ہے۔ دنیا میں امیر اور غریب کے مابین فرق کے لحاظ سے دس بدترین ممالک میں سے سات افریقہ سے ہیں۔ براعظم میں بلندوبالا عمارات اگ رہی ہیں۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔ شہری مڈل کلاس بڑھ رہی ہے۔ لیکن شہروں میں امیر آبادی کے ساتھ ہی انتہائی غریب آبادی بھی پائی جاتی ہے۔
زمبابوے افریقہ کے غریب ترین ممالک میں سے ہے۔ یہاں سے لوگ ملک سے باہر جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کی منزل امیر ہمسائے ہیں جو کہ جنوبی افریقہ اور بوٹسوانا ہیں۔ لیکن انہیں لوگوں کی آمد پسند نہیں۔ اور اس کو روکنے کے لئے سرحد پر رکاوٹیں حل ہیں۔ بوٹسوانا نے 300 میل لمبی برقی باڑ لگائی ہے۔ جنوبی افریقہ بھی ایسا کر چکا ہے۔ جنوبی افریقہ کی ایسی باڑ اس کے دوسرے ہمسائے موزمبیق کے ساتھ بھی ہے۔
رکاوٹوں کے باوجود لوگ جنوبی افریقہ پہنچتے ہیں اور ان باہر سے آنے والوں کی وجہ سے سیاسی مسائل ہیں جو کہ پرتشدد جھڑپوں میں بھی بدل جاتے ہیں۔
اور یہ ہمیں دنیا بھر میں کئی ممالک میں نظر آتا ہے۔ باہر سے آنے والوں پر غصہ اور ان سے خوف۔ نہ صرف مقامی ملازمتیں جانے کا الزام بلکہ جرائم کی شرح میں اضافہ، منشیات، گینگ وغیرہ بھی باہر سے آنے والوں پر لگتے ہیں۔
غربت جرائم کا سبب بھی بنتی ہے اور اس کا نتیجہ بھی۔ غریب لوگوں میں سے اکثریت جرائم کا رخ نہیں کرتی لیکن جرائم کا نشانہ زیادہ یہ بنتے ہیں۔ اور یہ ایک چکر ہے جو کہ غریب علاقوں کو اس سے نکلنے نہیں دیتا۔
امیر اپنی دولت کی مدد سے خود کو محفوظ کرتے ہیں۔ اس کے لئے الگ طرز کی دیواریں بنائی جاتی ہیں۔ ایسے رہائشی علاقے جس میں صرف گیٹ پر چیکنگ کے بعد اندر جایا جا سکتا ہے۔ محفوظ رہائش گاہیں بنانا معاشی ناہمواری کی یہ دیواریں غریب ممالک میں عام ہیں۔ اس قسم کی رہائش گاہیں اشرافیہ کے لئے پرکشش ہیں جن میں چوبیس گھنٹے سیکورٹی سسٹم ہو، حفاظت کے برقی نظام ہوں، رہائشی علاقوں میں بلااجازت داخلہ ملا ہو۔ کلب، سوئمنگ پول، ٹینس اور سکوائش کے کورٹ، بہترین سکول، گھڑ سواری کی جگہیں ۔۔۔ یہ دیواریں تعیش، حفاظت اور معاشرے میں خاص رتبے کا احساس دیتی ہیں۔
پرانے وقتوں میں امراء کی رہائش گاہوں کے گرد موٹی دیواریں اور قلعے بنانے کا رواج رہا۔ جب پولیس اور سیکورٹی نظام عام ہوئے تو شہروں کے گرد دیواروں کی ضرورت ختم ہو گئی۔ لیکن اب یہ خاص رہائشی علاقوں کے گرد واپس آنے لگی ہیں تا کہ ایک چھوٹی اقلیت مستقل طور پر ان کے پیچھے رہائش پذیر ہو سکے۔
ایسے گیٹ بند علاقوں کا رواج بیسویں صدی میں آیا اور بڑھ رہا ہے۔ جہاں پر جرائم اور غربت زیادہ ہیں، وہاں ایسے علاقے زیادہ مقبول ہیں اور یہ صرف افریقہ تک محدود نہیں۔
کسی معاشرے میں ایسے گیٹ بند علاقے زیادہ ہونا خطرے کی گھنٹی ہے۔ اس کا اثر مقامی اور قومی حکومت پر بھی پڑتا ہے۔ اشرافیہ اور عوام کے درمیان بنائی گئی ان دیواروں کا مطلب یہ ہے کہ اشرافیہ کے لئے اپنا الگ انفراسٹرکچر، پانی کے پائپ، نکاسی آب، بجلی، نجی سیکورٹی، صحت اور تفریح وغیرہ جیسی سہولیات ہیں۔ جب حکومت کا عوام کو فراہم کردہ سہولیات کی ذمہ داری اور معیار ان سے بہت مختلف ہو تو یہ قومی یکجہتی کے لئے ہی خطرہ بن جاتا ہے۔ “ہم سب اچھے اور برے وقت میں اکٹھے ہیں”۔ قومی یگانگت کا یہ نعرہ باقی نہیں رہتا۔
ان دیواروں کے پیچھے رہنے والے “نئے قبائل” کا روپ دھارنے لگتے ہیں۔ اس لئے نہیں کہ ان کا نسب ملتا ہے یا علاقہ اور زبان کا لہجہ ایک سا ہے بلکہ ان کا طرزِ زندگی ایک سا ہے، ایک سی دلچسپیاں ہیں اور ان کو باقی لوگوں کے مسائل میں دلچسپی نہیں۔ جب آپ اپنی حفاظت کی قیمت ادا کر سکتے ہیں تو پھر آپ کو باقی سب کے ساتھ ملکر رہنے کی ضرورت بھی باقی نہیں رہتی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Post Top Ad
Your Ad Spot
جمعہ، 6 دسمبر، 2024
Tags
Divided#
Share This
About Wahara Umbakar
Divided
لیبلز:
Divided
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
رابطہ فارم
Post Top Ad
Your Ad Spot
میرے بارے میں
علم کی تحریریں۔ مجھے امید ہے کہ میری یہ کاوش آپ سب کو پسند آئے گی اگر آپ نے میری اس کاوش سے کچھ سیکھا ہو یا آپ کے لئے یہ معلومات نئی ہوں تو اپنی رائے کا اظہار ضرور کیجیئے گا۔ شکریہ
۔
وہارا امباکر
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں