جب دیوار برلن گری اور جرمنی یکجا ہوئے تو عام طور پر اس بات پر اتفاق رائے تھا کہ مستقبل میں یورپ بھی یکجا ہو جائے گا۔ سرحدیں ختم ہو جائیں گی۔ ایک ہی کرنسی ہو گی۔ قومی ریاست کا تصور ماند پڑ جائے گا۔ افراد، اشیا اور خدمات آزادی سے رکن ریاستوں کے درمیان سفر کریں گی۔ عالمگریت کا دور آئے گا جس میں ایسے دوسرے بلاک بننا شروع ہوں گے۔
دو ہزار سال تک یورپی قبائل ایک دوسرے سے برسرِ پیکار رہے ہیں۔ دیوار کا گرنا اس کے خاتمے کی نوید ہے۔ اس امید بھرے مستقبل کی تصویر پر 1990 کی دہائی میں بڑی ضرب لگی جب یوگوسلاویہ کا شیرازہ بکھرا۔ بلقان کی پرانی قومیتوں کی تقسیم نے ملک کو جلا کر خاکستر کر دیا۔
یوگوسلاویہ کی ناکامی کے بعد ایک رائے یہ تھی کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یورپی یونین کی یکجائی کے پراجیکٹ کی کامیابی مزید اہم ہو گئی ہے جو مستقبل کے جھگڑوں کو روک سکے۔
یورپی یونین کا پراجیکٹ ایک سوال کو سامنے لے آیا۔ یکجائی کا مطلب یہ ہے کہ رکن اپنی خودمختاری کے کم از کم کچھ حصے سے دستبردار ہو جاتا ہے۔ قوانین، بجٹ، تجارت، بین الاقوامی تعلقات سمیت کئی فیصلے مرکز کو منتقل کرنا ہوتے ہیں۔ اور ایسا کرنے پر ہر کوئی تیار نہیں تھا۔ 1986 میں ایک یورپی منڈی قائم ہوئی۔ 1999 میں ایک کرنسی۔ جب تک حالات اچھے رہے، مسئلہ نہیں رہا لیکن بحران قومی یکجہتی کا امتحان ہوتے ہیں اور یورپی یونین کا پراجیکٹ 2008 کے معاشی بحران میں لڑکھڑا گیا۔
یورپی یونین کے تصور نے اپنے شہریوں کے دلوں میں کبھی بھی اپنی رکن ریاست سے برتر جگہ نہیں لی۔ “یورپی پہلے، جرمن یا فرنچ یا برطانوی یا اطالوی وغیرہ بعد میں” کی قبولیت نہیں ہوئی۔ اگر مشرقی یورپ سے آنے والا سستا پلمبر برطانوی پلمبر کے روزگار کو متاثر کرتا ہے تو اس کے سیاسی مضمرات ہیں۔ اس کا سب سے زیادہ اثر برطانیہ میں ہوا جو کہ بعد میں اس یونین سے الگ ہو گیا۔ ہر ممبر ملک میں ایسی جماعتیں ہیں جو کہ یورپ کے پراجیکٹ کے بارے میں زیادہ گرمجوشی نہیں رکھتیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ دانشور یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ “نیشنلزم”، “حب الوطنی” وغیرہ بے کار کی تصوراتی کہانیاں ہیں۔ لیکن اس اہم نکتے کو سمجھ نہیں پاتے کہ تصوراتی کے معنی غیرموجود ہونا نہیں۔ لوگوں کے اپنی قومی شناخت کے بارے میں احساس اصل ہیں۔
یورپی کمیشن کے صدر نے 2016 میں کہا کہ “قومی سرحدیں تاریخ کی بدترین ایجاد ہیں”۔ ہو سکتا ہے کہ ان کی بات میں وزن ہو لیکن کسی چیز کو برا کہہ دینے سے بھی وہ غائب نہیں ہو جاتی۔
اس نئی اشرافیہ کو نیشنلزم کے تصور کا ادراک نہ ہونے نے کئی مسائل کو جنم دیا۔ “اپنے” لوگوں سے کچھ مختلف لوگوں کی اچانک بڑی تعداد میں آمد نے امیگریشن کے بارے میں رویے سخت کر دیے۔ اس نے انتہاپسند پارٹیوں کو یورپ بھر میں مقبول کیا۔ اور یہ غیریورپی تارکین وطن کے بارے میں زیادہ اہم ہو گیا۔
امیگریشن کے بحران نے 2015 میں زیادہ توجہ حاصل کی۔ افریقہ اور مشرقی وسطی سے بہت سے لوگ بدامنی اور جنگ سے فرار ہو کر بہتر زندگی کی تلاش میں یورپ آئے۔ ابتدا میں زیادہ تر یورپی لیڈروں نے انہیں خوش آمدید کیا۔ لیکن پناہ گزینوں کے آنے کا تانتا بندھا رہا۔ یورپ بڑی تعداد میں مہاجرین کو قبول کرنے کو تیار نہیں تھا۔ 2015 میں دس لاکھ نئے لوگوں کی آمد ہوئی۔ کچھ یورپی ممالک نے اپنی سرحدوں کو سخت کرنا شروع کر دیا۔
ایک اور واقعہ روس کی طرف سے یوکرین کے علاقے کریمیا کو اپنا حصہ بنا لینے کا تھا۔ روس کی سرھد پر لیتھونیا، اسٹونیا اور لیٹویا نے باڑ لگانا شروع کر دی۔
گریس اور ترکیہ کے درمیان 2011 میں خاردار تار پناہ گزینوں کو روکنے کے لئے لگائی گئی۔ بلغاریہ نے 2015 میں یہی کام کیا۔
اور یوں، یورپ میں دیواروں کی واپسی کا کام شروع ہو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہنگری نے سرد جنگ کے بعد جو رکاوٹیں گرائی تھیں، انہیں 26 سال کے بعد دوبارہ بنانا شروع کر دیا۔ پہلے سربیا کی سرحد پر باڑ بنائی۔ پھر کروشیا کی سرحد پر۔ اس بار کے بننے کے بعد اس راستے سے آنے والوں کی آمد بند ہو گئی۔ ہنگری میں تارکین وطن کی آمد کو روکنا ایک بہت پرکشش سیاسی نعرہ ہے جس سے عوام کی اکثریت اتفاق کرتی ہے۔
ہنگری سے کچھ دوسری ریاستوں نے بھی مثال لی۔ “عارضی سرحدی کنٹرول” آنا شروع ہوئے۔ سلوانیہ نے کروشیا کی سرحد پر، میسیڈونیا نے گریس کی سرحد پر، آسٹریا نے سلوانیہ اور اٹلی کی سرحد پر باڑ بنائی۔ پھر ناروے نے روس کی سرحد پر بنائی۔ سویڈن نے ڈنمارک سے مالمو کی طرف آنے والوں کو روکنا شروع کیا۔ سرحدی کنٹرول لوٹنے لگے۔ سرحدوں کے بغیر یورپی یونین کے آئیڈیل کو خطرہ لاحق ہے۔
یورپ کے ساتھ ایک اور مسئلہ ہے جو کہ افرادی قوت کا ہے۔ یورپ میں شرح پیدائش بہت گر چکی ہے۔ آبادی عمررسیدہ ہو رہی ہے۔ اوسط عمر میں اضافہ ہو رہا ہے۔ کام کرنے والے ہاتھ تارکین وطن سے آتے ہیں۔ لیکن کیا یورپی عوام ایسا سمجھتی ہے؟ سروے کے مطابق ایسا نہیں۔ جرمنی میں 14 فیصد جبکہ گریس میں 1 فیصد آبادی اس بات کے لئے تیار ہے کہ باہر سے نئے لوگ ان کے ملک میں آئیں۔
اس کی ایک وجہ دہشگردی کے واقعات اور جرائم ہیں۔ یہ الگ بات کہ اگرچہ تاثر یہ ہے کہ ان میں تارکین وطن ملوث ہیں لیکن ان واقعات کی بڑی تعداد میں یورپی شہریوں کا کام رہا ہے۔
ایک اور شکایت یہ ہے کہ باہر سے آنے والے سماجی خدمات کے شعبے پر بوجھ بنتے ہیں۔ اگر آپ ہنگری یا فرانس میں سرجری کے لئے قطار میں ہیں تو اس قطار میں آپ سے آگے ایسے لوگ بھی ہیں جو کہ ملک میں نئے آئے ہیں جبکہ آپ دہائیوں سے ان خدمات کے لئے ٹیکس ادا کرتے رہے ہیں۔ اس قطار میں غیریورپی شہریوں کی موجودگی آپ کو گراں گزرتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈنمارک نے 2016 میں قانون منظور کیا کہ اگر کوئی پناہ گزین ملک میں آتا ہے اور اس کے پاس نقدی اور زیورات وغیرہ کی کل مالیت دس ہزار کرونا (ڈھائی لاکھ روپے) سے زائد ہے تو سرکار یہ اضافی رقم اپنی تحویل میں لے لے گی تا کہ صحت اور رہائش جیسی سماجی خدمات فراہم کی جا سکیں۔ اس قانون پر تنقید ہوئی لیکن کئی جرمن صوبے اور سویٹزرلینڈ بھی ایسا کر چکے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اور رائے یہ ہے کہ باہر سے آنے والے “یورپی اقدار” نہیں رکھتے۔ ایسی اقدار کی تعریف کرنا مشکل ہے۔ لیکن شخصی آزادی، صنفی برابری، آزادی اظہار رائے، مذہبی آزادی وغیرہ جیسے معاملات میں کئی بار دوسرے کلچر یورپی کلچر سے خاصے مختلف ہو سکتے ہیں۔ اور یہ وہ چیز ہے جسے کئی یورپی شہری ثقافتی خطرہ گردانتے ہیں۔ اور ان پر بہت سنجیدہ مسائل بھی ہو چکے ہیں۔
Post Top Ad
جمعہ، 6 دسمبر، 2024
Tags
Divided#
Share This
About Wahara Umbakar
علم کی تحریریں۔ مجھے امید ہے کہ میری یہ کاوش آپ سب کو پسند آئے گی اگر آپ نے میری اس کاوش سے کچھ سیکھا ہو یا آپ کے لئے یہ معلومات نئی ہوں تو اپنی رائے کا اظہار ضرور کیجیئے گا۔ شکریہ
۔
وہارا امباکر
لیبلز:
Divided
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں