یورپ بہت سے ممالک سے آنے والوں کا گھر بن چکا ہے۔ 1970 اور 1980 کی دہائی میں لاکھوں افراد ویت نام سے آنے۔ چین، انڈیا، پاکستان، عرب، لاطینی امریکہ سے آنے والوں کی بڑی آبادی ہے۔ اس وقت ایک حساس مسئلہ مسلمان بمقابلہ غیرمسلمان کا درپیش ہے۔
یورپ میں مسلمان آبادی کی شرح زیادہ نہیں۔ جرمنی میں 48 لاکھ، فرانس میں 47 لاکھ، برطانیہ میں 29 لاکھ، سویڈن میں 5 لاکھ، گریس میں 6 لاکھ مسلمان آبادی ہیں۔ یہ کل آبادی کا چھ فیصد ہیں۔ اگرچہ اس شرح میں ہر دس سال میں ایک فیصد کا اضافہ ہو رہا ہے لیکن یہ ابھی بھی بڑی اقلیت نہیں۔
تاہم، کئی بڑے شہری علاقوں میں یہ ملکر کمیونٹی کی صورت میں رہتے ہیں اور مذہبی معاملات میں زیادہ آواز اٹھاتے ہیں۔ یورپ میں جنوبی اور مشرقی ریاستوں میں مسلمانوں کے خلاف جذبات زیادہ پائے جاتے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق ہنگری میں 72 فیصد آبادی کا، اٹلی میں 69 فیصد آبادی کا، پولینڈ میں 66 فیصد آبادی کا جبکہ گریس میں 65 فیصد آبادی کا مسلمانوں کے بارے میں منفی تاثر تھا۔ اس کے مقابلے میں جرمنی میں 29 فیصد جبکہ برطانیہ میں 28 فیصد آبادی کا منفی تاثر تھا۔
لیکن “اسلام کے بارے میں بے چینی” اس وقت یورپ بھر میں ایک سیاسی مسئلہ ہے۔ اور انتخابات پر بھی اس کا اثر ہے۔ فرانس کے سابق صدر فرانسوا اولاند نے اپنی کتاب “وہ باتیں جو صدر کو نہیں کہنی چاہیئں” میں لکھا کہ “فرانس میں تارکین وطن کی تعداد ضرورت سے زیادہ ہے۔ ایسے لوگ اب فرانس میں ہیں جنہیں کبھی بھی یہاں پر نہیں ہونا چاہیے تھے۔ اور خاص طور پر یہ مسئلہ مسلمان آبادی کے ساتھ ہے۔ کوئی بآوازِ بلند اس بات کا اقرار کرے یا نہیں، لیکن اس کا پتا سب کو ہے”۔
فرانس میں کئی محلے اور قصبے ایسے ہیں جہاں پر بھاری اکثریت میں مسلمان ہیں۔ اور اسے علاقے عام طور پر شہروں کے مضافات میں ہیں۔ اور یہ شہر کے غریب ترین علاقے ہوتے ہیں۔
آج سے ایک صدی قبل، فرانس کو ایسا ہی مسئلہ پولینڈ اور اٹلی سے آنے والوں سے تھا لیکن وقت کے ساتھ یہ لوگ فرنچ معاشرے میں جذب ہو گئے۔
مسلمان آبادی میں دو چیزوں کا فرق ہے۔ پہلا، جلد کی رنگت کا۔ نسل پرستی انسانی فطرت کا نتیجہ ہے۔ جلد کی رنگت سے فرق پڑتا ہے۔ دوسرا، یہ کہ مسلمان آبادی میں سے کئی ایسے ہیں جو علیحدہ شناخت رکھنا چاہتے ہیں۔
کیا یہ جذب ہو سکیں گے؟ یہ ان کے لئے اور فرانس کے لئے اہم سوال ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یورپ میں قوم پرست اور دائیں بازو کے انتہاپسند زور پکڑ رہے ہیں۔ فرانس، گریس، سویڈن، آسٹریا، ہنگری سمیت کئی ممالک میں یہ جاری ہے۔
اسے یورپی نظریے کے منافی کہا جا سکتا ہے لیکن آج کی سیاسی حقیقت ہے۔
انجیلا مرکل نے ۲۰۱۵ میں جرمنی کے دروازے پناہ گزینوں کے لئے کھولے۔ اس پر انہیں تنقید کا نشانہ بنایا گیا جو کہ دوسرے یورپی لیڈران کی بھی تھی اور خود جرمنی کے اندر سے بھی تھی۔ بہت سے جرمنوں نے نئے آنے والوں کو خوش آمدید کہا۔ ہزاروں رضاکاروں نے ان کے مسائل کے حل کے لئے کام کیا۔ اس میں جرمن زبان سکھانا اور روزگار ڈھونڈنے میں مدد کرنا بھی تھا۔ لیکن جس طرح لوگ آتے گئے، یہ احساس ہوتا گیا کہ معاشرے کی ہم آہنگی میں مسائل ہو رہے ہیں۔ اس سال دس لاکھ غیریورپی جرمنی پہنچے۔ بڑی تعداد میں سیریا سے۔ اس کے بعد افغان، عراقی، ایرانی اور ایریٹریا سے آنے والے تھے۔
پہلا مسئلہ یہ تھا کہ نئے آنے والے ان علاقوں کا رخ کرتے تھے جہاں انہی جیسے لوگ رہائش پذیر ہوں۔ اس نے کئی علاقوں کی کلچرل شناخت بدل دی۔ پاکستانی رہائن مین کی طرف جانا چاہتے تھے۔ افغان ہیمبرگ کو۔ سیرین برلن میں۔ ان گنجان آباد علاقوں میں رہائش کی جگہیں کم تھیں۔ کرائے زیادہ تھے۔ جلد ہی ایسے علاقے بننے لگے جہاں پر دوسرے جانے سے گھبراتے تھے۔
ابتدائی خوش آمدید ماند پڑی۔ جرائم کی شرح بڑھی۔ اور ساتھ ہی پناہ گزینوں کے بارے میں رویہ بدلنے لگا۔ ترکیہ سے ڈیل کی گئی جس نے نئے آنے والوں کی شرح میں کمی کی۔
سابق مغربی جرمنی میں آنے والے مقابلتاً بہت زیادہ ہیں۔ جرمن حکومت نے 2016 میں جو سالانہ رپورٹ جاری کی، اس میں “امیگریشن کے مسئلے سے سماجی امن کو خطرات” کو معاشی ترقی کے لئے رکاوٹ قرار دیا۔
پناہ گزینوں کی رہائش گاہوں پر حملوں کے واقعات رونما ہونے لگے۔ اور اس نے PEGIDA جیسی تنظیموں کو جنم دیا جن کا نعرہ “یورپ کو اسلام کے خطرے سے بچانے” کا تھا۔ انتہاپسندانہ نظریات کی وجہ سے اس جماعت کی مقبولیت جلد ہی ختم ہو گئی لیکن مجموعی طور پر امیگریشن کے خلاف سیاسی جماعتیں اب یورپ میں توجہ اور ووٹ لیتی ہیں۔
ان میں ہنگری کے وزیر اعظم وکٹر اوربان بھی ہیں جن کا کہنا ہے کہ “یورپی یونین جس بنیاد پر قائم کی گئی، وہ بنیاد ہی غلط ہے”۔
ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ سے یورپ کی طرف آنے والوں کی اکثریت ایسے معاشروں سے آتی ہے جہاں پر جبر کے نظام ہیں اور آمریت مسلط ہے۔ ان سے کیا کیا جائے۔ یہ یورپ کا بڑا چیلنج ہے۔ یہ سوال صرف امیگریشن تک محدود نہیں۔ قومی خودمختاری، تجارت، معیشت سمیت یہ یورپی اقدار کے بارے میں بحث ہے۔
یورپ میں پرانی تقسیم لوٹ رہی ہے۔ گرتی ہوئی دیواریں واپس لوٹ رہی ہیں۔ اگلے چند سالوں میں زیادہ واضح ہو گا کہ آیا یورپ کے لئے مستقبل کا سفر ماضی کی جانب سفر ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں