تنازعات اور تقسیم دنیا کی حقیقت ہیں۔ اور جہاں پر سرحدیں جغرافیہ کو تقسیم کرتی ہیں، وہاں پر دنیا میں جگہ جگہ متنازعہ علاقے ہیں۔ کئی جگہوں پر بفر زون بنانے پر اتفاق ہو جاتا ہے۔ اور کئی بار بفر زون ہتھیاروں کا نشانہ بن جاتے ہیں۔
قبرص کا جزیرہ دو میں تقسیم ہے۔ نصف ترکیہ کا اور نصف گریس کا ہے۔ ان کے درمیان ۱۱۱ میل کا بفر زون ہے۔ اس میں وروشا کا شہر ہے جسے 1974 میں آبادی سے خالی کروایا گیا۔ اب اس کے گرد خاردار تار لگی ہے جہاں پر ترک فوج نگرانی کرتی ہے۔ کبھی کسی پرندے کی چہچاہٹ کے سوا اب کوئی آواز نہیں۔ گلیاں خالی پڑی ہیں۔ فٹ پاتھوں پر جھاڑیاں اگی ہیں۔ عمارتیں کھنڈر ہو گئیں۔ رات کو گھپ اندھیرا آن لیتا ہے۔
جبری تقسیم اور مسلح تصادم ہماری دیواروں کی کہانیاں ہیں۔
یہ صرف ان علاقوں میں ہی نہیں جہاں پر جنگیں ہیں۔ ہنگری کی خاردار تاروں کی پالیسی افراد کی آمد روکنے کے لئے ہے۔ ان لوگوں کی نقل و حرکت کو روکنے کی، جو کہ غربت یا جنگ سے فرار ہو کر خوشحال دنیا کی طرف جانا چاہتے ہیں۔ افریقہ میں معاشی بدحالی بھی ہے اور تیزی سے بڑھتی آبادی بھی جو کہ توقع ہے کہ اگلے تیس سال میں دگنا ہو جائے گی۔ اس وجہ سے لوگوں کی آمد کی لہریں جاری رہیں گی۔
دنیا میں کئی دانشور “کھلی سرحدوں” کی وکالت کرتے ہیں۔ ناتھان سمتھ کہتے ہیں کہ دہشتگردی یا کسی مہلک وبا کی روک تھام کے سوا افراد کی نقل و حرکت روکنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں۔ اور دنیا سے غربت ختم کرنے کا یہی طریقہ ہو گا۔ اس وجہ سے سرحدوں کو کھولنا خوشحال ملکوں کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔
ایک اور رائے یہ بھی دی جاتی ہے کہ شہریت کا تصور ہی دنیا میں فساد کی جڑ ہے۔ یہ کچھ لوگوں کے حقوق کچھ دوسرے لوگوں سے برتر کر دیتا ہے۔ حقوق شہری کے نہیں، بلکہ انسان کے ہوتے ہیں۔
تاہم، اس یوٹوپیا کے ساتھ کئی مسائل ہیں۔ اول تو یہ کہ اگر ایسا ہو جائے تو پھر فلاحی ریاست کا تصور سب سے پہلے ناکام ہو گا۔
لیکن بڑا مسئلہ یہاں پر انسانی فطرت کا ہے۔ ہم گروہی شناخت رکھتے ہیں۔ “اپنوں” اور “بیگانوں” میں فرق رکھتے ہیں۔ اور اگر “دوسرے” زیادہ تعداد میں ہونے لگیں تو پھر خوف در آتا ہے۔ یورپ کے تجربے کی یہی کہانی ہے۔ اور یہ صرف یورپ تک محدود نہیں۔ انڈیا کی شمال مشرقی ریاستوں میں بنگلہ دیشی تارکین وطن کا بھی ایسا ہی معاملہ ہم دیکھ آئے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
لاطینی امریکہ میں پیراکوئے کے شہر انکارناسیون کو 2014 میں اپنے ارجنٹینا کے ہمسائیوں سے جدا کرنے کے لئے پندرہ فٹ بلند اور ایک میل لمبی کنکریٹ کی دیوار کھڑی کی گئی۔ یہ اس لئے کہ بولیویا سے براستہ پیراگوئے ارجنٹینا آنے والوں کو روکا جا سکے۔
کھلی سرحدوں کا ماڈل ہماری دنیا میں کام نہیں کرتا۔ کم از کم مستقبل قریب میں تو ایسا ہونے کا امکان نہیں ہے۔ قومی ریاست کے تصور کے ساتھ کچھ مسائل ہیں۔ اس وجہ سے جب “خلا” کے بارے میں عالمی معاہدہ ہوا تو اس میں کہا گیا تھا کہ خلا تمام انسانیت کیلئے مشترک علاقہ ہے۔ اور چاند کے بارے میں کہا گیا کہ “چاند یا کسی بھی دوسرے سیارچے کی سطح یا اس کے وسائل کسی ریاست یا تنظیم کی ملکیت نہیں ہوں گے”۔
چاند کے مستقبل کا تو علم نہیں لیکن زمین میں قومی ریاستوں کے تحلیل ہو کر اس کا “انسانیت کی مشترک میراث” بننے کا امکان نہیں ہے۔ اس بارے میں وقتا فوقتا کی گئی پیشگوئیاں غلط ہوتی رہی ہیں۔
قومی ریاست کا تصور نسبتا مستحکم دنیا کا سبب بنا ہے۔ جنگیں کم ہوئی ہیں۔ جمہوری اصول اور قانون کی حکمرانی جیسے تصورات کئی ریاستوں میں پروان چڑھے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن یہاں پر ایک بڑا چیلنج ہے۔ دنیا میں ترقی ہر ایک کے لئے یکساں نہیں۔ ایسے ممالک ہیں جہاں آمرانہ طرزِ حکومت اور جبر کے نظام قائم ہیں۔ ایسے ممالک ہیں جہاں بندوق اور گولی کی حکومت ہے۔ اور یہ دنیا کے امن کے لئے اچھی خبر نہیں کیونکہ ایسے ممالک کے شہریوں میں ریاستی وفاداری ختم ہو جاتی ہے۔ اور یہ مستحکم خطوں کا رخ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اور اس کو روکنے کے لئے دیواریں اٹھنے لگتی ہیں۔ پسماندہ ممالک میں سیاست جس قدر بھیانک ہو جاتی ہے، ان کے گرد دیواریں اس قدر بلند ہو جاتی ہیں۔ ایسے شہریوں کو کوئی جگہ دینے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔
خوشحال علاقوں میں آنے والوں کی تعداد اگر قابو میں رہے تو یہ وقت کے ساتھ نئی جگہوں میں جذب ہو سکتے ہیں۔ مہمان اور میزبان کی اقدار میں ہم آہنگی آ سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ حقیقت ہے کہ “عالمی بھائی چارہ” اپنا وجود نہیں رکھتا۔ یہ حقیقت ہے کہ وسائل کے لئے مقابلہ ہے اور رہے گا۔ اور جب تک ایسا ہے، ہم دیواریں بناتے رہیں گے۔
ہم اسی دنیا کی ہی مخلوق ہیں۔ اور ہر مخلوق کی طرح، ہمیں بھی اپنی جگہ چاہیے۔
ایک کہاوت ہے کہ اچھی دیوار ہو تو اچھا ہمسایہ بن کر رہا جا سکتا ہے۔ یہ مادی اور نفسیاتی دیواروں کا سچ ہے۔
اور دوسری طرف، ہم صرف دیواریں ہی نہیں بناتے۔ ہم اپنے درمیان کی جگہ پر پُل بھی بناتے ہیں۔ دنیا کو جوڑنے کے لئے انفارمیشن سپرہائی وے بھی انہی دیواروں کے ساتھ گزرتی ہے۔ ہم اپنے سے بہت مختلف لوگوں کو قبول بھی کرتے ہیں۔ ان سے معاملات اور تجارت بھی کرتے ہیں۔ اپنے دشمن سے بھی صلح کر سکتے ہیں۔
میزائل سسٹم کے ساتھ عالمی سپیس سٹیشن بھی تعمیر ہوتے ہیں۔ امیر اقوام غریب اقوام کو ہر سال اربوں ڈالر عطیہ بھی کرتی ہیں۔ ہم سب اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ حقوق کے اعتبار سے، سب انسان برابر ہیں۔ بڑی دیواروں کے ساتھ بڑے ہال بھی تعمیر کئے جاتے ہیں۔ علاقائی اور عالمی تنظیمیں اور ریاستوں کے نمائندے ان میں ملتے ہیں جہاں پر اقوامِ عالم اپنے معاملات اور تنازعات پر بات کر سکتے ہیں۔ گمبھیر مسائل کے پائیدار حل بھی انسانی ذہن سے تخلیق ہونے والے کارنامے ہیں۔
نیشنلزم اور شناخت کی سیاست کی بڑھتی مقبولیت کے ساتھ ساتھ
دیواروں کی اس دنیا میں ہماری اپنی داستان جاری ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں