گزرے وقتوں کے جہاز ران سمندر کو ویسے پڑھتے تھے جیسے اسکیمو برف کو۔ راستے تلاش کرنے والے نہ صرف اپنی زندگی کا بلکہ کئی زندگیوں کے سبق سے فائدہ اٹھاتے تھے، جو کہ ایک نسل سے اگلی میں منتقل ہوا ہوتا تھا۔ یہ وہ علم تھا جس نے سمندروں کو رکاوٹ کے بجائے مہم جوئی کی شاہراہیں بنا دیا تھا۔ تجارت اور آبادکاری کے راستے کھلے تھے۔ علم طاقت ہے اور اس وجہ سے کئی تہذیبوں میں جہازرانوں کی بڑی تعظیم ہوتی تھی۔ سمندر میں راستوں کا ان کے علم کی وجہ سے انہیں ریاستی راز کی طرح محفوظ رکھا جاتا تھا۔
یہ علم زبانی منتقل ہوتا تھا اور اس قدیم علم کا بڑا حصہ ہمیشہ کیلئے گم ہو چکا۔ اس میں ایک استثنا پولینیشیا کے ملاح اور عالم ڈیوڈ ہنری لیوس ہیں۔ انہوں نے بحرالکاہل کی زبانی روایات کو قلم بند کیا جب یہ ابھی زندہ تھیں۔ جنوبی سمندروں کے جہازرانوں کے انٹرویو کئے اور ان کے ساتھ سفر کئے۔ ان کی تحقیق کا مجموعہ 1947 میں شائع ہوا جس کا عنوان “We, the Navigators: The Ancient Art of Landfinding I the Pacific” تھا۔ اس میں ان معموں کو حل کیا گیا ہے جو کہ یورپی مہم جوؤں کو پریشان کرتے تھے۔ کہ آخر ایسا کیسے ممکن ہے کہ یہ لوگ سادہ کشتیوں میں اتنے بڑے سمندر پر معمول میں پھرتے رہے جو کہ دنیا کے ایک تہائی حصے پر پھیلا ہوا ہے۔ اور اس قدر چھوٹے چزیروں تک کیسے پہنچ جاتے تھے جب ان کے پاس نہ ہی قطب نما تھے، نہ ہی نقشے اور نہ ہی زاویہ پیما۔
راستہ تلاش کرنے کے لئے یہ لوگ ستاروں، سورج، ہواؤں اور لہروں کی مدد لیتے تھے۔ پرندوں کی ہجرت کے راستوں کا پیچھا کرتے تھے۔ لمبی دم والے طوطے جو کہ ٹاہیٹی سے نیوزی لینڈ کا سفر کرتے۔ سنہری زقزاق جو کہ ہوائی کا سفر کرتے تھے۔ خشکی کی تلاش صرف افق پر نقطہ دیکھنے کی نہیں بلکہ اس کے لئے آسمان پر بھی دیکھا ہے۔ جزیرے پر بادل جو پیٹرن بناتے ہیں، اس سے پتا لگایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ تربیت یافتہ کتے تھے جنہیں کوری کہا جاتا تھا جو کہ خشکی کو سونکھ کر بھونک پڑتے تھے۔
اس کے علاوہ ان کے پاس ایک اور غیرمعمولی تکنیک تھی۔ یہ حیاتیاتی روشنی کو پڑھنا تھا۔ اس روشنی کو یہ “ٹی لاپا” کہتے تھے۔ عام روشنی “ٹی پورا” سطح کے قریب نظر آتی تھی جبکہ یہ سمندر کی سطح کے نیچے گہرائی میں، اس میں روشنی کے تار اور فلیش سطح سے ایک سے چھ فٹ نیچے تھے۔ اور ان کے نظارے کا پیٹرن دیکھ کر بہترین جہازران یہ اندازہ لگا لیتے تھے کہ زمین کتنی دور ہے۔ جب زمین دور ہوتی تھی تو ان کی حرکت کی رفتار زمین قریب ہونے کے مقابلے میں کم ہوتی تھی۔ زمین قریب ہو تو یہ تیز اور جھٹکوں والی حرکت تھی۔ خشکی سے اسی سے سو میل کے فاصلے پر یہ زیادہ نمایاں ہوتے تھے جبکہ آٹھ سے نو میل دور غائب ہو جاتے تھے۔ جہازرانوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ لاپا سے یہ بھی پہچان لیتے تھے کہ یہ مرجان کے ہیں یا خشکی کے۔ لیوس کہتے ہیں کہ یہ فن جہازرانوں نے ان کو بھی سکھایا اور وہ بھی یہ تفریق کر سکتے تھے۔
دلچسپ چیز یہ ہے کہ سمندر کی روشنی سے راستہ تلاش کرنے کا یہ فن ٹونگا اور گلبرٹ جزائر کے لوگوں کو بھی پتا تھا اور انہوں نے یہ الگ سے تلاش کیا تھا۔
لیکن یہ لاپا کیا تھے؟ لیوش کا خیال تھا کہ سمندر کی لہریں جب خشکی سے ٹکراتی ہیں تو واپس پلٹتی ہیں۔ آواز کی لہروں کی ہی طرح سمندر کی لہریں ٹھوس اجسام سے ٹکرا کر منعکس بھی ہوتی ہیں اور خم بھی کھاتی ہیں۔ اور اگر کئی جزائر کا جھرمٹ ہو تو خاص پیٹرن بنتے ہیں۔
یہ صرف سطح تک محدود نہیں ہوتے۔ اور یہ پانی میں turbulence پیدا کرتے ہیں۔ اور ان کا تعلق ان روشنیوں سے ہوتا ہے جن سے ملاح خشکی کا پتا لگا لیتے تھے۔
(جاری ہے)
Post Top Ad
Your Ad Spot
جمعہ، 17 جنوری، 2025
زندہ روشنیاں (12) ۔ ملاحوں کی رہنمائی
Tags
Below the Edge of Darkness#
Share This
About Wahara Umbakar
Below the Edge of Darkness
لیبلز:
Below the Edge of Darkness
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
رابطہ فارم
Post Top Ad
Your Ad Spot
میرے بارے میں
علم کی تحریریں۔ مجھے امید ہے کہ میری یہ کاوش آپ سب کو پسند آئے گی اگر آپ نے میری اس کاوش سے کچھ سیکھا ہو یا آپ کے لئے یہ معلومات نئی ہوں تو اپنی رائے کا اظہار ضرور کیجیئے گا۔ شکریہ
۔
وہارا امباکر
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں